علی گڑھ: 7 مارچ، ہماری آواز(پریس ریلیز/امجدی) البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ، علی گڑھ میں تحفظ ناموس رسالت پر ایک میٹنگ منعقد کی گئی۔
امان ملت سید محمد امان میاں قادری صاحب نے فرمایا کہ ہمیں ہندی، اردو اور دیگر زبانوں میں سیرت رسولﷺ پر کتابچے شائع کرنے چاہئیں اور یہ کتابچے سیرت طیبہ کے اکثر گوشوں کا احاطہ کریں اور انہیں دوسرے مذاہب کے لوگوں میں بھی تقسیم کیا جائے تاکہ لوگ سیرت طیبہ سے صحیح طور سے واقف ہوں۔ اور مدارس اور اسکولوں میں بھی سیرت طیبہ کا مواد زیادہ سے زیادہ پڑھایا جائے تاکہ ہمارے بچے اچھی طرح سیرت طیبہ سے واقف ہوں۔
سید نور عالم مصباحی صاحب نے فرمایا کہ ہمیں منظم ہونے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں ہمیں کرنا یہ چاہیے کہ ہم اپنے جلسوں میں ایک تقریر سیرت پر ضرور رکھیں، رسائل و جرائد میں سیرت پر مقالات ہونے چاہئیں۔ ہماری نسلوں کو سیرت طیبہ سے واقف ہونا بے حد ضروری ہے تاکہ جب بھی اس طرح کے معاملات دشمنانِ اسلام کی طرف سے آئیں تو ہمارے ایمان متزلزل نہ ہوں اور ہم بخوبی اس کا جواب دے سکیں۔اس کے علاوہ آپ نے یہ بھی کہا کہ سیرت نبوی کے پیغام کو عام کرنے کے لیے ہندی اور انگریزی اخباروں میں ضمیمے شائع کروائے جائیں۔
سید مصطفی علی قادری نے بیان فرمایا کہ جگہ جگہ سیرت اکیڈمیاں قائم کی جائیں، سیرت طیبہ پر شارٹ ٹرم کورسز کروائے جائیں تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ سیرت طیبہ سے واقف ہوں۔
مولانا ساجد نصیری صاحب نے کہا کہ جو لوگ قرآن اور رسول اکرمﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں، یا کسی بھی مذہب کی اہم شخصیات کی شان میں اہانت کرتے ہیں ان کو حکومت سخت سے سخت سزائیں دے تاکہ ملک کا امن برقرار رہے اور ملک کی بھائی چارگی قائم رہے۔
عرفان برکاتی صاحب نے کہا کہ جو بھی گستاخ رسول ﷺ سیرت کو لے کر اعتراض کرتے ہیں، ان کے ہر اعتراض کا جواب ہم اپنی میگزین کے ذریعے دیں اپنی تقریروں میں بیان کریں۔ جن چیزوں پر اعتراض کیا گیا ہے ان کی اسلام میں کیا حیثیت ہے اس کو کھول کر بیان کریں اور اگر معترض کی کتابوں میں بھی ایسی باتوں کا ثبوت ملتا ہو تو اس کا حوالہ دے کر بھی ہمیں بیان کرنا چاہیے جس سے غیروں کو حقیقت کا پتہ چل سکے۔
اراکین تحفظ ناموس رسالت نے متفقہ طور پر علماء، ائمہ، دانشوران، اہل ثروت، تجّار، اسکول و کالج کے مالکان، سماجی تنظیمیں اور سماج کے با اثر لوگوں سے یہ مطالبہ کیا کہ سب تحفظ ناموس رسالت کے لیے آگے آئیں اور اپنے اپنے شہروں، قصبوں میں سیرت کمیٹی قائم کریں اور ہر ضلع کی مرکزی سیرت کمیٹی بنائی جائے اور اس سلسلے میں البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ سے، شعبہئ مطالعہئ سیرت رہنمائی اور گائیڈنس کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔
شعبہ مطالعہ سیرت کے اسکالر مفتی عبد المصطفیٰ صاحب نے یہ ذمہ داری لی کہ وہ جلد از جلد سیرت پر ایک کتابچہ تیار کریں گے اور ان شاء اللہ اسے پورے ملک میں تقسیم کیا جائے گا اس کے علاوہ انہوں نے سیرت کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے اہم تجاویز بھی پیش کیں۔
1: ایک ایسی لائبریری کا قیام عمل میں لایا جائے جس میں سیرت پاک کے متعلق لکھی گئی مختلف زبانوں کی قدیم وجدیدکتابیں دستیاب ہوں۔
2: سیرت پاک کے متعلق کام کرنے والے لوگوں کو ایک اچھے ماحول میں لائبریری سے فائدہ اٹھانے کی سہولت مہیا کی جائے۔
3: سیرت کے ماہر اسکالرز تیار کئے جائیں۔ ان کے لیے وظائف اور نوکری کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
4: چھٹی کلاس سے لے کر انٹر تک کے طلبہ کے لیے سیرت کا ایک جامع نصاب ہندوستان کی مشہور زبانوں میں تیار کراجائے اور اسے مسلم اسکولوں میں لاگو کرنے کی کوشش کی جائے۔
5: سیرت کی مستند کتابوں کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا جائے اور ان کے متعلقہ علاقوں تک پہنچانے کی کوشش کی جائے۔
6: مختلف تعلیم گاہوں اور الگ الگ علاقوں میں سیرت پاک سے متعلق لیکچر سریز اور کانفرنسز کااہتمام کیا جائے۔
7: ماہانہ میگزین نکالی جائے جس میں حالات حاضرہ کی مناسبت سے صرف سیرت کے مضامین شائع ہوں۔
8: ہندوستان کی دیگر لائبریریز میں اوران مساجد میں جہاں لائبریری موجود ہیں سیرت کی کتابیں پہنچائی جائیں اور مختلف شہروں میں سیرت کی چھوٹی چھوٹی لائبریریاں قائم کی جائیں اور سیرت کلاسز کااہتمام کیا جائے۔
9: ہرطبقے کے لوگوں اور موجودہ حالات کے حساب سے سیرت کے چھوٹے چھوٹے کتابچے شائع کیے جائیں اور مفت یا کم قیمت پر لوگوں میں تقسیم کیے جائیں۔
10: سیرت کی تعلیمات کو موجودہ علوم وفنون اور سائنس وٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے لوگوں تک پہنچایا جائے۔
اس موقع پر شیخ نعمان احمد ازہری، ناظم دینیات، البرکات پبلک اسکول، علی گڑھ، ڈاکٹر سلمان رضا علیمی، مولانا شمشاد اجمل برکاتی صاحبان موجود تھے۔