مذہبی مضامین نبی کریمﷺ

ایمان یہ کہتا ہے میری جان ہیں یہ

از قلم:- محمد ایوب مظہر نظامی

انسانی رشد و ہدایت اور اس کے وجود و بقا کے لئے پیغمبر اسلام (ﷺ) کی اطاعت و اتباع لازمی ہے، اسلامی نظام بھی سنت و سیرت رسول اللہ ﷺ سے عبارت ہے، چنانچہ قرآن و احادیث پر اگر ایک سرسری نگاہ بھی ڈالیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے ، قرآن کریم میں متعدد مقامات پر رب تبارک و تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کی اطاعت و محبت کو واجب العمل قرار دیا ہے،

ارشاد باری تعالیٰ:

  • اے محبوب فرما دو کہ اگر تم اللہ کی محبت چاہتے ہو تو میری اتباع کرو، (آل عمران)
  • رسول جو تمہیں حکم دیں انہیں مان لو اور جس سے منع کریں اس سے باز رہو، ( عشر)
  • اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو، (النساء)
  • جس نے رسول کا حکم مانا اس نے اللہ کا حکم مانا، (النساء)

اس طرح کی تمام آیتوں کی تشریح و توضیح احادیث پاک سے ہو جاتی ہے، بخاری و مسلم کی مشہور حدیث ہے، کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن ہو نہیں سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں،

دارین کے سردار جناب محمد رسول ﷺ سے صحابۂ کرام کے بے مثال عشق و ورافتگی کے واقعات داستان عشق ومحبت کے ذرین شہ پارے ہیں، انہوں نے آپ کی ذات سے منسوب اشیاء سے بھی وہ والہانہ جذبۂ شوق و عقیدت پیش کیا کہ دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے، جس نے بھی اس جام سے ایک گھونٹ پی لیا، "یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے” کا مصداق ہو گیا، ساتھ ہی تاریخ نے اپنے سینے میں ان ملعون کور باطن افراد کا عبرتناک انجام بھی محفوظ کر لیا ہے جنہوں نے شان رسالت مآب ﷺ میں گستاخی کی ناپاک جسارت کی، اس بارگاہِ ناز کی رفعتوں کا اندازہ بھلا کون کر سکتا ہے، جس کی عظمت و شوکت کی بڑائی خود رب کائنات بیان فرمائے اور تنقیص و توہین کے پہلو تلاش کرنے والے کو شدیدجواب بھی دے، حضرت قاسم کی وفات پر جب کفار نے آپ کو منقطع النسل کہاتو قرآن میں اللہ نے انہیں مسکت جواب دیا، ابو لہب کی گستاخانہ جسارت پر سورۂ تبت یدا نازل ہوئی، اور ابو لہب کا اسی کی زبان میں شدید مذمت کی گئی، عتبہ نے بدتمیزی کے چند الفاظ کہے تو پاک پروردگار کے مقرر کردہ شیر نے لوگوں کی سوئی ہوئی بھیڑ میں منہ سونگ کر تلاش کیا اور اس کو پھاڑ ڈالا، ولید بن مغیرہ کی گستاخی پر اس کے نو عیوب کو افشا کرنے کے بعد، بعد ذالک رقیم، ( اس پر طرفہ یہ کہ اس کی اصل میں خطا ہے) نے دنیا کے سامنے اس کی حقیقت عیاں کر دی

سنت الٰہیہ پر عمل کرتے ہوئے صحابۂ کرام نے بھی گستاخانِ بارگاہِ رسالت مآب ﷺ کو شدید ہزیمت سے دوچار کیا، چنانچہ کفار و یہود کی ہجو کا جواب حضرت حسان رسول پاک کے سایۂ کرم میں دیا کرتے، یہودیوں کا سردار کعب بن اشرف جب حد سے تجاوز کرنے لگا تو حضرت محمد بن مسلمہ نے اسے واصل جہنم کر دیا، سرکار دوعالم ﷺ کو ایک وادی میں نماز پڑھتا دیکھ کر ایک گستاخ نے مزاق اڑایا تو حضرت سعد بن وقاص برداشت نہ کر سکے اور پاس پڑی اونٹ کی ران کی ہڈی سے اس شاتم رسول کو ایسا مارا کہ فی النار کر دیا، ابو رافع یہودی کی گستاخی کا علاج حضرت عبداللہ بن عقبہ نے کیا، حضور کی شان میں بدکلامی کرنے والی ایک عورت کو اس کے محابی شوہر نے باز رہنے کی تاکید کی، اس نے نہ مانا تو شوہر نے پٹخ اس کا خاتمہ کردیا، منافقین کے ارتکاب توہین کے موقعوں پر صحابۂ کرام کا حضور ﷺ سے ان کے قتل کی اجازت طلب کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ صحابۂ کرام جانتے تھے کہ گستاخ رسول کی سزا صرف قتل ہے،
ہر دور میں صحابۂ کرام کے نقش پا کو چومتے ہوئے غلامان مصطفی ﷺ نے اپنی حرارت ایمانی اور جذبۂ دینی کا ثبوت پیش کیا،
چنانچہ آریہ سماج کا لیڈر شاتم رسول شردھانند جس نے شدھی تحریک کی بنیاد ڈالی تھی، اس کی دریدہ دہنی پر ایک نوجوان قاضی عبد الرشید نے ١٧ دسمبر ١٩٢٧ء کو گولیوں سے چھلنی کر ڈالا اور خوشی سے پھانسی کے پھندے کو چوم لیا، ١٩٢٩ء سندھ میں ناتھورام آریہ نے گستاخی کی جسارت کی تو عبد القیوم کوچوان نے کراچی کی بھری عدالت میں ایسا چھرا مارا کہ اس گستاخ رسول کی موقع پر ہی موت ہو گئی اور واصل جہنم ہو گیا، ١٩٢٩ء ہی میں حیوانات کا ایک ڈاکٹر رام گوپال نے حیوانیت کا مظاہرہ کیا تو اس کا علاج غازی مرید حسین نامی ایک غیور مسلمان نے بخوبی کرڈالا، لاہور میں کرشنا نامی بدذات نے "رنگیلا رسول” نامی کتاب لکھ کر رسول پاک کی بے حرمتی کرنی چاہی تو مشہور ہے کہ ایک جیالے مسلم کی ماں نے اپنے نوجوان بیٹے سے کہا کہ ” تو جا اور اس شیطان کو قتل کر دے ورنہ میں تیرا دودھ معاف نہیں کروں گی” اور پھر اس نوجوان نے اپنی ماں کے دودھ کا حق ادا کرتے ہوئے اس گستاخ کو فی النار کر دیا،
اسی طرح پنجاب (پاکستان) کے نامراد گورنر سلمان تاثیر نے جب ناموس رسالت پر حملہ کیا اور آسیہ ملعونہ کی حمایت کی تو اسے کے محافظ دستہ کا ایک عاشق رسول غازی ممتاز قادری نے ٤ جنوری ٢٠١١ء کو اسے واصل جہنم کر دیااور ٢٩ فروری ٢٠١٦ء کو جام شہادت سے سرفراز ہوئے،
حاصل کلام یہ کہ مؤمن کی شان یہ نہیں کہ تحقیر و تنقیص رسالت مآب ﷺ کے موضوع پر ما و شما کا لحاظ کرے، علم و جہل، اسلامی اور غیر اسلامی ناموں پر نظر رکھے، خواہ شردھانند، ناتھورام اور رام گوپال ہو کہ سلمان رشدی، سلمان تاثیر اور تسلیمہ نسرین، اختلاف نام کے باوجود سب ایک ہی سزا کے مستحق تھے اور ہیں اور وہ ہے، گستاخ رسول کی ایک ہی سزا، سر تن سے جد سر تن سے جدا،
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی جان و مال اور عزت و وقار رسول گرامی کی عزت و وقار پر نچھاور کر دیں اور ماںئں عبد الرشید، عبد القیوم اور ممتاز قادری جیسے غازی کو جنم دیں اور کہیں کہ جاؤ بیٹا وسیم رافضی اور نرسنکھا نند کو قتل کر دو اور اس طرح اپنی جان و عزت رسول اللہ پر قربان کر دو

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے