اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جلد ہی ہم پر ماہ رمضان المبارک اپنی رحمتوں و برکتوں کے ساتھ سایہ فگن ہونے والا ہے، ویسے تو سبھی دن اللہ کے، رات بھی اسی کی ہیں، لیکن اس کی رحمت اپنے بندوں کو نوازنے کے لیے بہانے ڈھونڈتی رہتی ہے۔اب یہ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ ہم اس ماہ مبارک سے کتنا مستفید ہوتے ہیں اور خود کو کس طرح رحمت و مغفرت کا مستحق بناتے ہیں، اس ماہ میں سرکش شیاطین قید کر دیئے جاتے ہیں اس لیے اچھے اعمال کرنا آسان ہو جاتا ہے۔حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان المبارک کی آمد سے قبل صحابہ کرامؓ کے سامنے اس مہینے کی عظمت وفضیلت بیان کرتے اور اس کی برکتوں اوررحمتوں سے اپنے دامن کو بھرنے کے لیے پوری کوشش اورسعی وجہد کی تاکید فرمایا کرتے۔
ماہ رمضان المبارک کا استقبال ہم اس فکر کے ساتھ کریں کہ ہمیں اس ماہ مبارک کو غنیمت جانتے ہوئے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونا ہے اور اپنی زندگیوں میں تبدیلی لاتے ہوئے آئندہ زندگی کے لئے زاد راہ جمع کرنا ہے، لہذا چند امور پر خاص طور پر توجہ دیناہے تاکہ اس سے بہتر طریقہ سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔اس ماہ مبارک کے آغاز کے لئے پورے اہتمام اوراشتیاق کے ساتھ رمضان المبارک کاچاند دیکھنے کی کوشش کریں، اپنی نیت کوخالص کرکے رمضان کااستقبال کریں،رمضان المبارک کے استقبال کے لیے جہاں ہم بہت ساری تیاریاں اوراہتمام کرتے ہیں وہیں ہمیں اپنی روحانی اورذاتی حالت بھی توجہ دینا چاہیے،تاکہ تقویٰ دل میں اپنا مقام بنالے اورقلب ہرطرح کی برائیوں سے پاک وصاف ہوجائے۔اس ماہ مبارک کے شروع ہی میں کوئی اچھی عادت اپنانے اورکسی بری عادت کوتر کرنے کا ارادہ کرلیں اور اس ماہ میں اس پر پوری طرح عمل کریں۔ماہ رمضان المبارک میں نفل فرض کے برابر اور فرض کا ثواب سات سوگنا زیادہ ہوجاتاہے، اس ماہ میں تھوڑی سی کوشش اور ارادے سے بھی ہرآدمی کی طبیعت نیکی کی طرف راغب اورگناہوں سے بچنے پرآمادہ ہوجاتی ہے،لہٰذا اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ نیکی اوربھلائی کاکام کرنا چاہیے۔روزہ کا ایک اہم مقصد اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچنا بھی ہے،ایسے تمام کاموں اورباتوں سے اجتناب کرنا چاہیے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوناراض کرنے والی ہیں جیسے جھوٹ بولنا،گندی اورلغو باتیں کرنا، غیبت اورچغل خوری، بداخلاقی، بہتان تراشی، امانت میں خیانت، ظلم اور زیادتی، دوسری کی حق تلفی، ناجائز منافع خوری فتنہ و فساد، آپس میں دشمنی پیدا کرانا وغیرہ۔حدیث شریف میں اس ماہ مبارک کوشہر المواسات کہاگیاہے،اس ماہ مبارک میں غریبوں،فاقہ کشوں،محتاجوں،بے کسوں اور مظلوموں کے دکھ درد کااحساس پیدا ہوتاہے اور انکی مدد کرناچاہتا ہے،بھوکوں کو کھانا کھلانا، غریب اور محتاجوں کی اعانت،اور مریضوں کا علاج اور ان کی صحیح دیکھ بھال،یتیمون، مسکینوں، اوربیواؤں کی مدد او ر خبر گیری،رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی،روزہ دار کو افطار کرانا اور انفاق فی سبیل اللہ میں کثرت ہونی چاہئے۔ماہ رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ ہے قرآن حکیم جس مقصد کے لئے نازل ہوا ہے۔روزہ اس کے حصول کے لئے مستعد و تیار کرتاہے،اس ماہ مبارک کا حا صل قرآن مجیدکوسنناہے،اس کی تلاوت کرنا،اور اس پر عمل کرناہے۔تراویح کے اندر ہم پورا قرآن مجید سنتے ہیں،اسی پر اکتفانہیں کرنا چاہئے،بلکہ الگ سے اس کی تلاوت اور اس کو سمجھنے کے لئے ترجمہ کے ساتھ پڑھناچاہئے،اس طرح اس ماہ مبارک میں قرآن مجید سے اپنے عملی تعلق کو مضبوط کرلیں۔اللہ تعالی کے نزدیک سب سے پسندیدہ کام ذکر ہے یہ در حقیقت اسلامی زندگی کی علامت ہے اور یہ عبادت آدمی ہروقت اور ہر حالت میں اپنی زبان سے،دل سے اور اپنے اعضاوجوار ح سے ادا کر سکتا ہے۔دعاعبادت کا مغز اور مومن کا ہتھیار ہے۔اس کے نتیجے میں مومن کو تسکین روح اور اطمنان قلب کی دولت نصیب ہوتی ہے۔رمضان المبارک میں دعاکا خاص اہتمام ہونا چاہئے۔مولانا ممشاد پاشاہ نے مزید کہا کہ اس مہینے کا اس کے شایان شان استقبال کریں۔اس کے روزے آداب شرط کے ساتھ رکھیں،نیت میں خلوص ہو،صرف فرض نمازوں کو کافی ناسمجھیں بلکہ کافی اہتمام کریں،قرآن مجید سے اپنا تعلق مضوط کریں،انسان کے لئے سراپاخدمت اور ان کے غم خوار بن جائیں۔ معصیت سے بچنے کے لئے ذکر ودعا کو اپنا ہتھیار بنائیں اور حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو اپنے ذہنوں میں رکھیں،کتنے روزہ دار ہیں جن کو اپنے روزہ سے بھوک پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا اور کتنے راتوں کو نماز پڑھنے والے ایسے ہیں جن کو اپنی نمازوں سے راتوں کو جاگنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
از افادات: (مولانا) سید محمد علی قادری الہاشمی