اصلاح معاشرہ

غریبوں کی مدد کرنا وقت کی اہم ضرورت

تحریر: محمد رجب علی مصباحی، گڑھوا
رکن: مجلس علماے جھارکھنڈ

آج پوری دنیاکرونا وائرس جیسی مہلک مرض کی چپیٹ میں آچکی ہے اور بالخصوص ہندوستان کی جو شبیہ بگڑی ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔دن بہ دن اموات کی شرحوں میں اضافہ ہو رہا ہے جہاں ہر روز کئی افراد یتیم و بے سہارا ہورہے ہیں، کئی عورتوں کا سہاگ اجڑ رہا ہے وہیں پر بے شمار وانگنت اشخاص مفلسی اور تنگ دستی کا شکار ہو کر اپنی زندگی سے ناامید ہو جارہے ہیں اور اس کی واحد وجہ ہے حکومت ہند کی بے اعتنائی اور عدم توجہی ہے کیوں کہ جو افراد کرونا کے شکار ہورہے ہیں ان کے بچاؤ کے لیے کوئی خاص انتظام حکومت ہند کے پاس نہیں یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنی جیب میں لاکھ ولاکھ روپیہ لے کر بھی اپنے رشتہ داروں سے محروم ہوجارہےہیں یا یہ کہ ان کو افلاس و تنگ دستی نے اس قدر بےحال کردیا ہے کہ کھانے کی اشیا کی کمی اور امداد کے فقدان کی وجہ سے دنیا کو خیرآباد کہ دے رہے ہیں لہذا ایسے نازک اور ناگفتہ بہ حالات میں اگر ہم غریبوں کی دست گیری اور ان کا خیال نہ رکھیں تو ایسی زندگی جینے کا کوئی فائدہ نہیں۔اصل زندگی تو وہی ہے جو دوسروں کی فکر کرے، ان کا ہمہ وقت خیال رکھے اور حسب استطاعت ان کی پریشانی کو دور کرنے کی کوشش کرے۔
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ و الرضوان فرماتے ہیں "زندگی کس کام کی جو دوسروں کا کام نہ آئے”لہذا اپنے آس پاس اور قرب وجوار کا جائزہ لیں کہ وہ کس حالت میں ہیں، کہیں انہیں آپ کی ضرورت تو نہیں، پھر حسب حالت ان کا تعاون کریں، ان شاءاللہ العزیز رب تعالیٰ اس کا اجر عطا فرمائے گا، کیوں کہ رب تعالیٰ کا اعلان ہے:
📖 ارشاد ربانی ہے:
لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ (البقرہ:١٧٧)
ترجمہ:کچھ اصلی نیکی یہ نہیں کہ منھ مشرق یا مغرب کی طرف کرو ہاں اصل نیکی یہ ایمان لائے اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر اور اللہ کی محبت میں اپنا عزیز مال دے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور راہ گیر اور سائلوں کو اور گردن چھوڑانے میں ( کنز الایمان)
📖 دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے:
يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ ۖ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ ۗ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ(البقرہ:٢١٥)
ترجمہ:تم سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں تم فرماؤ جو کچھ مال نیکی میں خرچ کرو تو وہ ماں باپ اور قریب کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور راہ گیر کے لیے ہے اور جو بھلائی کرو بیشک اللہ اسے جانتا ہے (کنز الایمان)

اسی طرح سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار احادیث مبارکہ میں غریبوں، مسکینوں پر مال خرچ کرنے کی ترغیب دی اور اس پر موعود اجر وثواب کا اعلان فرمایا۔یہاں چند احادیث مبارکہ پیش خدمت ہیں:
📖 عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "من نفَّس عن مؤمن كربةً من كرب الدنيا نفّس الله عنه كربةً من كرب يوم القيامة، ومن يسّر على معسر يسّر الله عليه في الدنيا والآخرة، ومن ستر مسلماً ستره الله في الدنيا والآخرة، والله في عون العبد ما كان العبد في عون أخيه.(صحیح مسلم)
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی مومن کی دنیاوی پریشانی کو دور کرےگا رب تعالیٰ اس کی قیامت کی پریشانیوں میں سے کسی پریشانی کو دور فرما دے گا. جو شخص کسی کی تنگ دستی کو دور کرےگا رب تبارک و تعالیٰ
دنیا اور آخرت کی تنگ دستی کو دور فرمادے. اور جو شخص کسی کی پردہ پوشی فرمائے گا اللہ تعالیٰ بروز قیامت اس کی پردہ پوشی فرمائے گا. اور رب تعالیٰ بندے کی مدد میں اس وقت تک رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے.
حضرت ابوذر (رضی اللہ عنہ) روایت بیان کرتے ہیں کہ (مجھے) سیدی رسول الله (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’اے ابوذر! جب تم شوربا پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ رکھو اور اپنے پڑوسیوں کو یاد رکھو‘‘-(صحیح البخاری، کتاب الوصایا بالجار)

اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ(رضی اللہ عنہا) سے روايت ہے کہ سیدی رسول الله (ﷺ) نےارشاد فرمایا :

’’وہ بندہ مؤمن نہیں جو خود پیٹ بھر کر رات گزارے اور اس کا پڑوسی اس کے پڑوس میں بھوکا رہے ‘‘-[مستدرک علی الصحیحین، کتاب البیوع]

حضرت ابو موسٰی (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول الله (ﷺ) نے ارشاد فرمایا:

’’العانی یعنی قیدی کو چھڑاؤ، بھوکے کو کھانا کھلاؤ، مریض کی عیادت کرو ‘‘-[صحیح البخاری،کتاب فکاک الاسیر]

سيدنا ابوہريره (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ سیدی رسول الله (ﷺ) کی بارگاہِ اقدس میں عرض کی گئی یارسول اللہ (ﷺ)! اعمال میں سے سب سے افضل عمل کون سا ہے تو آپ (ﷺ) نےا رشادفرمایا :

’’(سب سے افضل عمل یہ ہے) کہ تم اپنے مؤمن بھائی کو خوشی پہنچاؤ یا اس کا قرض ادا کرو یا اسے کھانا کھلاؤ‘‘-[شعب الایمان،باب التعاون علی البر والتقوی]
غریبوں کی امداد کی اہمیت وافادیت کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم غار حرا میں تشریف فرماتھے اور ان پر وحی نازل ہوئی تو انہیں تکلیف و مشقت کا احساس ہوا تو انہوں نے ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے اس کا تذکرہ فرمایا تو ام المومنین نے جن باتوں کے ذریعہ آپ کو تسلی دی وہ یہ تھیں کہ
اِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِيْنُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ‘‘[صحیح البخاری، باب بدء الوحی]

’’بے شک آپ (ﷺ) صلہ رحمی کرتے ہیں، لوگوں (کمزوروں، یتیموں اور غریبوں) کا بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں کے لیے کماتے ہیں،مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہِ حق میں پیش آنے والی مشکلات میں مددکرتے ہیں ‘‘-
( لہذا ان کے توسل سے یہ پریشانی ختم ہو جائے گی،آپ نہ گھبرائیں)

ان آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ اس بات کی طرف رہنمائی کرتی ہیں کہ غریبوں کی مدد کرنا باعث خیر و برکت اور اجروثواب کا موجب ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے