نتیجۂ فکر: ذکی طارق بارہ بنکوی
سعادت گنج، بارہ بنکی، یو۔پی۔ بھارت
کہو، اک دوسرے کی کب ضرورت ہو گئے ہم تم
بھلا کیسے گرفتارِ محبت ہوگئے ہم تم
انا،عدل،آتما،سچ سب کا سودا یار کر بیٹھے
ستم ہے اس طرح سے نذرِ غربت ہوگئے ہم تم
محبت کے مقدس محترم ماحول میں رہ کر
ذرا دیکھو تو کتنے خوبصورت ہوگئے ہم تم
غلط فہمی،غرور و شان و ضد اور وہم کے ہاتھوں
بس اک پل میں محبت سے عداوت ہوگئے ہم تم
زہے قسمت اے ہمدم اپنے فرطِ عشق کے صدقے
جنوں کی ایک تاریخی حکایت ہوگئے ہم تم
چھٹے جب بدگمانی کے اندھیرے تب سمجھ پائے
کہ ترکِ عشق سے محرومِ نعمت ہوگئے ہم تم
ہماری دوستی کو دیکھ کر کُڑھتے ہیں بیچارے
جہاں والوں کی خاطر یار زحمت ہوگئے ہم تم
سبھی کہتے ہیں طفلی میں بہت معصوم بھولے تھے
جواں ہو کر بھلا کیسے قیامت ہو گئے ہم تم