رات کی تاریکیوں میں روشنی کے نام پر
ایک دیا میں نے جلا کر رکھ دیا ہے بام پر
میرے اپنوں نے مجھے کچھ اس طرح رسوا کیا
میرا دامن چاک کر ڈالا رفو کے نام پر
ایک دوجے سے لپٹ کر رو رہے تھے والدین
لاڈلے پردیش کو جب بھی گئے تھے کام پر
کیا بتاوں آپکو میں اپنے دل کی کیفیت
عشق میں گزری ہے کیا کیا اس دل ناکام پر
خود کو سب سے قیمتی ہونے کو تھا جسکو غرور
بک گیا وہ شخص آخر کوڈیوں کے دام پر
پاس میرے جیتے جی روشنؔ کوئی آیا نہیں
آج میلا سا لگا ہے زندگی کی شام پر
افروز روشن کچھوچھوی