افسانہ

آواز !!….

افسانہ نگار: حسین قریشی
بلڈانہ مہاراشٹر

کافی دنوں بعد راشد اور تسلیم گھر سے باہر آئے تھے۔ وہ درخت کے ورنڈے پر خاموش بیٹھے اپنے اپنے موبائل میں گُم تھے۔ غالباً وہ موبائل پر گیم کھیل رہے ہوںگے۔ راشد نے تسلیم سے کہا، ” کیا تم نے کوئی آواز سنی؟ مجھے ہیلو ۔۔۔۔۔۔ ہیلو ۔۔۔۔ کی آواز سنائی دے رہی ہے۔”

نہیں راشد ۔۔۔۔۔۔۔۔ "مجھے کوئی آواز نہیں سنائی دے رہی ہے۔”
ارے!! "اپنے موبائل کا آواز کم کرو۔۔۔۔ اور غور سے سنو۔” تسلیم نے کہا۔
ہاں۔۔۔۔۔ ہاں۔۔۔۔۔۔ یار۔۔ ہیلو ۔۔۔۔ ہیلو کی آواز سنائی دے رہی ہے۔
دونوں فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور چاروں جانب دیکھنے لگے۔

تسلیم تھوڑا نیچے کی جانب جھکا۔ اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا۔ اسے یقین ہوگیا کہ آواز نیچے زمین سے آرہی ہے۔ اس نے فوراً راشد کی پینٹ کھنچی اور نیچے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

دونوں نیچے زمین پر بیٹھ گئے۔ تب تسلیم نے کہا،” راشد آواز اِس زمین سے آرہی ہے دھیان سے سنو۔”
ہاں !!! بالکل صحیح کہہ رہے ہو۔

ہیلو، کیا تم میری آواز سن رہےہو؟
تم سب بچے کہاں چلے گئے ہو؟ کیا تمھیں اب صحت و تندرستی کی ضرورت نہیں رہی؟ کیوں! تم بچے کھیل کود اور ورزش کرنے کے لئے میرے پاس نہیں آتے ہو؟ ان سوالوں نے دونوں کوچونکادیا دونوں اپنا اپنا موبائل جیب میں رکھتے ہوئے ایک دوسرے کو گھُور نے گے۔ آواز میں درد تھا۔ آواز میں اداسی و تنہائی کی چُبھن کا احساس ہو رہا تھا۔ وہ دونوں پوری توجہ سے اس زمین کی آواز سن رہے تھے۔

بچوں !!! مجھے تمھارا انتظار رہتا ہے۔ بچوں۔۔۔۔۔ پہلے تم سب الگ صبح اپنے بڑوں کے ساتھ مجھے جگانے آتے تھے۔ تمھاری ہنسی مذاق مجھے اچھی لگتی تھی۔ تم اپنے دوستوں کے ساتھ انجوائے کرتے۔ انھیں اپنے حالات و خیالات سنایا کرتے تھے۔ زور زور سے گفتگو ہوتی۔ تمھاری ہنسی کے قہقہوں سے میری روح خوش ہوجاتی تھی۔ تم سب اپنا غم ، پریشانی دکھ میرے پاس چھوڑ جاتے تھے۔ تم ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے۔ بچوں تم سب اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملکر الگ الگ کھیل کھیلتے تھے۔ تمھیں دیکھکر مجھے اطمینان ہوتا تھا۔ ان سب سے میں پُر جوش ہوجاتا تھا۔ دن بھر شاد و آباد رہتا تھا۔

تم مجھے سن رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔ نا؟ میں نے بہت بچوں کومیرا حال سنانا چاہا مگر۔۔۔۔۔۔۔ پتہ نہیں وہ مجھے کیوں نظر انداز کرتے ہیں۔ انکے ہاتھوں میں ایک ڈبہ ہوتا ہے۔ وہ اسی پر اکیلے اکیلے کچھ کرتے رہتے ہیں۔ بچوں اب میں زندہ لاش ہوگیا ہوں۔ میں تنہا ہو چکا ہوں۔ تم نے مجھے ویران کر دیا ہے۔ مجھے چھوڑ کرنہ جانے سب کہا نکل گئے ؟ میری غلطی کیا ہے؟ میں سمجھ نہیں پارہا ہوں۔ تسلیم اور راشد ایک دوسرے کو حیران کن نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ وہ سمجھ گئے کہ یہ آواز اس "میدان” کی ہے۔ جہاں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل کود کرتے، خوب موج مستی کرتے تھے۔ سب ملکر صبح و شام ہنسی مذاق، دوڑ و کثرت کیا کرتے تھے۔

تسلیم نے کہا، "میرے پیارے ‘میدان’ دوست تمھارا کوئی قصور نہیں ہے۔ ہم سب موبائل کی دنیا میں گُم ہوگئے ہیں۔ اکیلے اکیلے گھروں میں بیٹھ کر ویڈیو گیم ، موبائل گیم کھیل رہےہیں۔ انٹر نیٹ پر گھنٹوں گھنٹوں گزار رہے ہیں۔ یہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر ہم کبھی ایک دوسرے سے ملتے بھی ہیں تب بھی موبائل میں کھوئے ہوئے رہتے ہیں۔ اس لیے غلطی ہم سب بچوں کی ہیں۔”

راشد نے کہا ، "ہاں ‘میدان ‘ دوست تسلیم صحیح کہہ رہا ہے۔ تم نے ہماری آنکھیں کھول دی ہے۔ میدانی کھیل ہماری صحت کے لئے اور بچوں کی ہمہ جہت ترقی کے لئے نہایت ضروری ہیں۔ اب ہم سب روزآنہ تم سے ملنے یہاں میدان پرآتے رہینگے۔”

تسلیم نے کہا، چلو راشد اپنے دوستوں کو آواز دو، میں احمد اور کلیم کو لے کر آتا ہوں۔ ساتھ ہی کرکٹ کِٹ لاتا ہوں۔” راشد بولا، ہاں کل کرے سو آج کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج کرے سو ابھی ۔۔۔۔۔ دونوں نے ہاتھ پر ہاتھ مار کر تالی بجائی اور خوشی سے ہنسنے ہوئے چل دیئے۔

آواز !!….” پر 0 تبصرے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے