تحریر: خلیل احمد فیضانی، راجستھان
بعض افراد پرانے گڑھے مردے اکھاڑنے میں کافی درک رکھتے ہیں ,کسی کی پگڑی اچھالنے کے لیے ماضی کی لغزشوں کو اصلاح کی آڑ میں اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ گویا یہ ان کی شرعی ذمہ داری ہو ,اپنے عزیز کے عیب کی پردہ پوشی عالی ظرف انسان کی شناخت ہوتی ہے ,جب کہ پردہ دری کج فکر و کینہ پرور انسان کی فطرت ہوتی ہے-
تعلیمی , تعمیری, تقریری وتحریری چاہے کسی بھی میدان میں آپ کا کؤی مؤمن بھائی اگر جاں فشانیاں کر رہا ہے تو اسے دادتحسین و خراج آفریں دینے کا مزاج بنأیں, نقد و طعن کے تیروں سے اس کے جذبات مضمحل کرنا آپ کو قطعا زیب نہیں دیتا اور نہ ہی شریعت طاہرہ اس کی اجازت فراہم کرتی ہے –
عربی مقولہ ہے "
یترشح ما فی الاناء
یعنی جو برتن میں ہوگا وہی ٹپکے گا
یہ مقولہ ایک کلیہ ہے اس لیے ہر مقام پر انطباق کی صلاحیت رکھتا ہے –
یقینا یہ ایک حقیقت واقعیہ ہے کہ
حوصلہ مند افراد حوصلہ افزائی کے ذریعے نا جانے کتنوں کے حوصلے بلند کردیتے ہیں جب کہ پژمردہ و منفی فکر کے حاملین اپنے دو بولوں سے ہی ذہنوں میں فتور ڈال دیتے ہیں ایسے لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرنی چاہیے کہ. کہیں وہ آپ کے روشن مستقبل کو قعر ظلمات میں نا جھونک دیں-
بعض حوصلہ شکن افراد اپنے زعم باطل سے اپنے آپ کو فخریہ; نقاد و تجزیہ نگار گردانتے ہیں
ہاں کیوں نہیں!لوگ بھی آپ کی تنقید تسلیم کریں گے لیکن ایک شرط کے ساتھ !اگر آپ کی تنقید براۓ اصلاح ہوگی تب تو مقبول ہے لیکن اس تنقید کی کوکھ میں کینہ , عداوت, ماضی کی رنجشوں کی بھڑاس و حوصلہ شکن عناصر مخفی ہوں گے تب اس کی مقبولیت بعید آپ کی شخصیت ہی عند الناس مردود ہوجاۓ گی لہذا اپنے آپ کی حفاظت کریں اپنے وقار و عزت کے تحفظ کا بندوبست کریں –
ظرف کشادہ ہے تو کامیوں کی حوصلہ افزائی کیجیے ورنہ غیر ضروری تنقید کرکے حوصلہ شکنی کا سبب مت بنیے