تحریر: شیخ نشاط اختر
(کٹیہار،بہار)
عصر حاضر میں چاروں سمت سے بس ایک ہی صدا گونج رہی ہے "انا مع الحق” میں ہی حق پر ہوں۔ سب اپنے آپ کو حقانیت و صداقت کے سردار بتا رہے ۔ سب اپنی ہی تحریک و تنظیم کو ترجمان أصلیت و حقیقت سے متعارف کروا رہے ہیں۔ اور پھر آپس میں ایک دوسرے پر لعن و تشنیع کا ماحول گرم کر رہے ہیں کہ فلاں تو وہ ہے ۔ فلاں تو ایسا ہے۔ فلاں نے تو یہ کردیا۔
اور پھر اس چنگل میں پس رہا ہوتا ہے عام مسلمان جو یہ ارادہ کرتے ہوں گے کہ ہم راہ حق کے مسافر بن جائیں، اور اللہ تعالی کی طرف رجوع کرلیں، برائیوں کو ترک کرکے اپنے آقا ﷺ کے امن و محبت والے دین پر مضبوطی سے قائم ہو جائیں مگر قائدین و صدور کے اس آپسی تنازع نے انہیں اصل دین پر قائم ہونے نہ دیا۔
میرے خیال سے یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ ہمارے بعض رہنما تعمیری کاموں پر توجہ کم صرف کرتے ہیں یا بلکل ہی نہیں کرتے-نتیجے کہ طور پر ان کے پاس وقت کی فراہمی ہوتی ہے پھر وہ اپنے معاصرین کے کاموں پر نکتہ چینی کرنے لگتے ہیں -ان کا عیب ڈھونڈ کر ان کے خلاف مورچہ سنبھال لیتے ہیں -کاش وہ اعتدال و توازن کا لبادہ پہن کر اور موعظت حسنہ کی چادر لپیٹ کر اصلاح کا فریضہ انجام دیتے تو ان کی باتیں قابل عمل ہوتیں اور تنقید کے علاوہ اپنے حصے کا کام کرتے تو ملت کا بڑا کام ہوتا:
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
ایک بات اور کہنا چاہوں گا کہ
اگر آپ خود کو اہل حق و صدق کہتے ہیں یا سمجھتے ہیں تو پہلے اپنی حقانیت و صداقت پہ نظر ثانی کریں. کیا آپ یقیناً بحثیت انسان اہل حق و صدق ہیں؟ اور کیا آپ بحثیت مسلمان بھی اہل حق و صدق ہیں؟ کیا آپ فقط تعریف پسند ہیں یا اپنے اوپر ہونے والی تنقید کو بھی سنجیدہ فکری کے ساتھ ویلکم کرتے ہیں؟ کیا آپ سامنے گالی دینے والے کا جواب گالی سے دیتے ہیں یا طریقئہ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کر لیتے ہیں؟ الغرض کیا آپ حقوق العباد میں کامل ہیں؟ اور کیا آپ دعوت و تبلیغ میں طریقئہ مصطفی ﷺ کو اپناتے بھی ہیں؟ اور یہ چیزیں مختصراً عرض کر رہا ہوں کہ سرکار مصطفی ﷺ کی پوری حیات کو دیکھ لیں، مشقتوں کو دیکھیں، مصائب و آلام کو دیکھیں، صبر و تحمل، برداشت کو دیکھیں، حکمتوں کو دیکھیں اور پھر ان ساری چیزوں کے اندر آپکی حیثیت کیا ہے؟ کامل ہیں؟ یا ناقص ہیں؟ یا مثل "نا” ہیں۔ چوںکہ یہ دلائل ہیں اور بغیر دلائل کے دعویٰ کمزور ہے، مثل "نا” کے ہے.
اور ہرگز تشدد پرستی، شخصیت پرستی، مشربی تنازع اور نفرتوں کی آگ کے ذریعے امن و محبت کو جلادینا غیروں،اپنوں کو تکلیف دینا ۔ اپنی ہی مفاد کیلئے کام کرنا مخالفین کے ساتھ بدسلوکی کے ساتھ پیش آنا انکو گالیاں دینا یہ آقائے کریم ﷺ کے طریقئہ کار میں ہے ہی نہیں ۔ بلکہ اپنے مخالف رائے رکھنے والوں کو اپنے اخلاق کریمانہ، حکمت و تدبیر اور حسن کلام کے ذریعے اپنی طرف مائل کرلینا، گالی دینے والوں کو ہدایت کی دعائیں دے دینا، یہ اصل اسلام ہے یہ طریقئہ مصطفویہ ﷺ ہے۔
کہا جاتا ہے کہ زمانہ بڑا ہی خراب ہے میاں! کیا کریں!
تو یاد رکھیں سمندر چاہے کتنا ہی بڑا ہو اگر آپ مخلص ہیں تو اسے ضرور عبور کر سکتے ہیں بس اپنے افکار و اخلاق کو اپنے پیارے آقاﷺ کے افکار و اخلاق کے ساتھ جوڑدیں. فضولیات کو ترک کرکے مقصدیت پہ اتر جائیں تو یقیناً ہمارے أحوال کی درستگی ضرور سے ضرور ہوگی۔کیا ہی خوب کہا ہے اقبال نے : قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ ہے موقوف۔