تحریر: پٹیل عبد الرحمن مصباحی، گجرات (انڈیا)
کہتے ہیں بڑے آدمی پر تنقید کرنے کے لیے مضبوط حافظہ، کشادہ ذہن، اعلیٰ تعلیم، وسیع مطالعہ اور کثیر تجربہ درکار ہے……. مگر اہلیتِ نقد کے لیے طے کی گئیں یہ تمام ٹرمس اور کنڈیشنز تب لاگو ہوتی ہیں جب کہ بڑا آدمی اپنی بالغ نظری، اخلاص پروری، خیر خواہی اور بے لوث خدمت کی وجہ سے بڑا بنا ہو. ورنہ کیا تاریخ نے حماقت خیز، شریر طبع، بد اندیش، بے لگام اور سَنکِیوں کی بڑی تعداد کو زمانہ در زمانہ بڑا نہیں بنایا. اگر چہ ان کا دورانیہ کم یا زیادہ رہا ہو مگر بڑائی کی کرسی نے ان کے لیے جلوس کا اہتمام تو کیا.
اُلٹی گنتی کی جائے تو ہٹلر سے نپولین، اتا ترک سے حجّاج، رضا شاہ پہلوی سے مروان اور فرعون سے نمرود تک ایسے برسرِ کار بلکہ برسرِ پیکار، ناکاروں کی لمبی فہرست، تاریخ نے اپنے صفحہ ہستی پر بنا رکھی ہے. بدعقلوں کی تخت نشینی کی یہ سنتِ قدیمہ اس لیے بھی جاری رکھی گئی کہ ان کا عبرت ناک انجام دیکھ کر آئندہ کسی کم عقل، خود پسند اور انا پرست کے سر پر بڑا بننے کا بھوت سوار نہ ہو. ویسے بھی بد عقلی کوئی باغ تھوڑی ہے کہ مالی، حفاظت پر کھڑا ہو، یہ تو ایک ریگزار ہے، کوئی بھی کم ظرف حیوانِ ناطق، کسی بھی وقت اس میں داخل ہو سکتا ہے.
ایسے بڑے، قابلِ تنقید بلکہ لائقِ مذمت افراد کی لسٹ میں ماضی قریب کے تین ناموں کو جگہ نہ ملے تو، رسوائی کی یہ فہرست ادھوری رہ جاتی ہے. مذکورہ کیٹیگری کا ایک ایک بڑا، کسی بھی قوم کی کئی نسلوں کے لیے عذاب ثابت ہوا ہے. ذرا سوچیے! اس قوم کا کیا حشر ہوگا جس کو بیک وقت یا بتسلسل تین تین بڑوں نے احمقوں کی جنت کے خواب دکھائے ہوں. بلا شبہ وہ قوم اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے ہی جنت نشان معاشرے کو دوزخ کا نمونہ بنتے دیکھتی اور سسک کر رہ جاتی ہے. عبرت ناک بڑائی کا یہ خنّاس ترکی میں پیدا ہو کر بھارت میں پلا اور جوان ہو کر ایران پر سوار ہو گیا. کمال پاشا ترکی، مسٹر آزاد ہندی اور رضا شاہ پہلوی ایرانی؛ اوطان میں مختلف ہونے کے باوجود اوصاف میں اتنے مشترک ہیں کہ لگتا ہے تینوں کے دل میں وسوسے ڈالنے کا کام ایک ہی شیطان کے ذمہ تھا.
اس سلسلے کی شروعات، قوم مسلم کو فکری و تہذیبی آزادی اور ماڈرنزم کی تمام فحاشیوں سے ہم کنار کر کے مغربی طرز کی ایک "مہذّب قوم” بنانے کا عزم رکھنے والے، اتا ترک کمال پاشا سے کرتے ہیں. مصطفٰی کا لاحقہ موصوف کی دین بیزار شخصیت کو زیب نہیں دیتا. ایک سر پِھرا، ایک سنکی، ایک مغرب زدہ اور سب سے بڑھ کر ایک انا پرست لیڈر. کیا اتنی ساری خود فریبیاں پالنے کے بعد بھی سیدھی راہ کی توقع یا توفیق باقی رہتی ہے؟ توقع تو بہر حال نہیں رہتی، البتہ توفیق کا عطیہ کسی کو بھی مل سکتا ہے، مگر قسمت کی ستم ظریفی کہ اتا ترک اس سے بھی گئے. اگر پاشا صاحب کو کوئی بتاتا کہ دنیوی سعادت اگر چہ برطانیہ کی غلامی میں ہے مگر اخروی سعادت بزورِ غلامی نیست، تو شاید تاریخ کچھ اور ہوتی. چند عثمانیوں کی نااہلی کی وجہ سے پوری خلافت کے خاتمے کا اعلان کر دینا کون سی عقلمندی ہے. پھر شقاوت کا یہ سلسلہ یہاں تھم جاتا تو شاید موصوف کی نیت خیر کو مان لیا جاتا کہ جناب ظالم نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے، مگر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور نکلا. اذان پر پابندی، حجاب کی ممانعت، تلاوتِ قرآن پر بندش، عربی زبان پر روک تھام، عربی رسم الخط کی ملک بدری اور نہ جانے کتنے ایسے فیصلے جنہوں نے امت مسلمہ کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کیا. اتا ترک اپنی ماڈرن اصلاحات کے نفاذ اور مزعومہ جمہوریت کی تاسیس میں اس قدر پرجوش تھے کہ انہیں خبر ہی نہ ہوئی کہ زندگی کی تھوڑی سی مدت کب ختم ہو گئی اور کب مؤرخ نے قلم کی تلوار سے ان کی غلامی کا لباس چیر کر انہیں وزیر اعظم سے ننگ دنیا و ننگ دین بنا دیا. اخروی شقاوت تو پہلے ہی بغل گیر تھی اب دنیوی ذلت بھی دامن گیر ہو گئی.
رضا شاہ پہلوی کو ایران کا اتا ترک کہیے یا مسٹر آزاد کو انڈیا کا رضا شاہ پہلوی، بات ایک ہی ہے. خانقاہی زبان میں؛ ایرانی مرید، ہندی پیر اور ترکی میرِ سلسلہ. یہ طے کرنا مشکل ہے کہ پہلوی صاحب روس دشمنی میں امریکہ کے غلام بنے یا فکر کی کجی اور طبیعت کی آزاد روی انہیں اس طرف لے گئی. بہر حال رضا شاہ کی شاہانہ اور جلا وطنی؛ دونوں طرح کی زندگی امریکہ کے مرہون منت رہی. فارس کو نئے ایران میں بدلنے اور پرشِیَن کی جگہ انگریزی تھوپنے کے فیصلے ہوتے تو واشنگٹن میں تھے مگر وطنی خمار اور پہلوی اقتدار باقی رکھنے کے لیے ان کا اعلان ایران میں ہوتا تھا، وہ بھی مقامی زبان میں. لسانیات کا ماہر بھی سر جوڑ کر بیٹھ جاتا ہوگا جب فارسی میں انگریزی سیکھنے کے اشتہار لگتے ہوں گے، بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے یہاں گجراتی، بنگالی یا اردو زبان میں انگریزی بولنے، لکھنے، پڑھنے کے اشتہارات سے در و دیوار مزین رہتے ہیں. رضا شاہ کے بارے میں یہ فیصلہ بھی مشکل ہے کہ وہ شخص روس کے کمیونزم کا دشمن تھا یا اسے ایران کے مذہبی کلچر سے عداوت تھی، بَیر جس سے بھی ہو بہرحال لگاؤ مغربی تہذیب سے اور پیار امریکہ سے ضرور تھا. تیل کے خزانے نے جیسے سعودی کو حرم میں رہتے ہوئے حرام کا عادی بنا دیا ایسے ہی رضا شاہ کو نجف کا شہنشاہ ہوتے ہوئے بھی یزیدیت سے ہمکنار کر دیا. ویسے بھی جب دولت قدم چومنے لگے تو مستی میں مذہب کا دامن چھوٹ جانے کی روایت؛ انسانی تاریخ کا ایک حصہ ہے. تیل کے خزانے نے مست کیا، رضا شاہ نے ایران کو مذہب سے پاک کرنے کا پلان بنایا، عوام کا رد عمل سامنے آیا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے رضا شاہ کے اقتدار کا بت زمین بوس ہو کر بکھر گیا اور اب مؤرخین اس کے ریزوں سے اپنے تنقیدی محل کی تعمیر میں لگے ہوئے ہیں.
مسٹر آزاد کو ہم نے ترتیب کے اعتبار سے اخیر میں اس لیے رکھا کہ وہ کامیابی کی ترتیب میں بھی اپنے دونوں ساتھیوں سے پیچھے رہ گئے، ایک جمہوریہ ترکی کا وزیر اعظم بنا تو دوسرا ایران کا پندرہ سو سالہ بادشاہ، مگر مسٹر آزاد کا تو متاعِ کارواں بھی گیا اور لٹیروں نے ہم نوائی سے بھی منہ موڑ لیا. وہاں دونوں کو اپنی غلامی کے بدلے اگر چہ درمیانی دلال کی حیثیت ہی سے سہی مگر چند دنوں کی حکومت تو نصیب ہوئی، اِدھر مسٹر آزاد ہیں کہ اپنے مفاد کے لیے قوم کو زندہ در گور کر دینے کے بعد بھی انعام اتنا حقیر ملا کہ وزیر تعلیم بنا کر اردو-ہندی کا جھگڑا سلجھانے کی لایعنی ذمہ داری سر پر ڈال دی گئی. کانگریس اور برہمن کی غلامی کا پٹہ اتنا کمزور تھا کہ مسٹر آزاد اس پر اپنی ناکام لیڈری کو سولی بھی نہ دے سکے. اپنی لیڈری کے چکر میں آزاد جی نے آنے والی مسلم نسلوں کو وہ ناسور دیے کہ آج تک امت کا عقلمند طبقہ موصوف کے حق میں شش و پنج میں مبتلا ہے کہ آیا وہ شخص دانا دشمن تھا یا نادان دوست. مسٹر آزاد کو امت کی بیخ کنی میں کمال کی مہارت حاصل تھی. جب چاہا مسلمانانِ بر صغیر کو بے سرو سامانی کے عالم میں ہجرت کرا دی. جب دل میں آیا کشمیر سے کنیا کماری تک اپنی بیعت کا ڈھکوسلہ کھڑا کر دیا، جب مَن میں آیا گائے کی تقدیس کا وظیفہ شروع کر دیا، جب چاہا خلافت کے ٹھیکیدار بن کر کروڑوں کا چندہ بٹور لیا. اتنے تضادات کے باوجود آزاد جی کو کسی چیز میں استقلال حاصل تھا تو وہ تھی گاندھی کی پیروی اور دوسرا کام جو انہوں نے زندگی بھر بڑی پامردی سے کیا وہ تھا کانگریس کی غلامی. البتہ ان کی عقلمندی میں شبہہ نہیں کیا جا سکتا. زندگی کے ہر موڑ پر ایک نیا شگوفہ چھوڑ کر دو طرفہ واہ واہی حاصل کرنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا. خلافت، ہجرت، ترک موالات اور امامت جیسی اصطلاحات سے مسلم لیڈر بھی بنے رہے، ان ہی الفاظ کو سیاست میں لا کر کانگریسیت کا دامن بھی ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیا اور ان ہی اصطلاحوں کی وضاحت میں بُتِ ہندی کی محبت میں برہمن بننے کا جواز بھی فراہم کرتے رہے. ایسے تین طرفہ عروج کے بعد کسے خیال آ سکتا تھا کہ مسٹر آزاد چو طرفہ زوال کا شکار ہو کر آخری عمر میں تیس صفحات کی ناکامی کی داستان "انڈیا ونس فریڈم” میں شامل کروا کر دنیا سے چل بسیں گے.
ہم نے ماضی قریب کی مسلم تاریخ سے تین پیشہ ور غلاموں کا انتخاب کیا ہے جن کو لیڈری، پارٹی پرستی، وطن پرستی اور درمیانی دلالی کے لیے نوکری پر رکھا گیا تھا. آپ ناموں کی تبدیلی کے ساتھ ایسے بیسیوں کردار یہاں فٹ کر سکتے ہیں. لطف کی بات تو یہ ہے کہ زمانے کے ساتھ ساتھ نوکری نے بھی اپنا دائرہ وسیع کر لیا ہے. پہلے صرف مزودری اور خدمت گزاری نوکری تھی اب لیڈری اور حکمرانی کو بھی نوکری کا درجہ حاصل ہو گیا ہے. ویسے نوکری کا لفظ درمیانی عہد کی وضع ہے، آج کل اسے جاب(Job) کہتے ہیں اور پرانے زمانے میں اسے غلامی کہا کرتے تھے۔