✍🏿 محمد منصور عالم نوری مصباحی
مدرس دارالعلوم عظمت غریب نواز پوسد مہاراشٹر
متوطن : بڑاپوکھر طیب پور کشن گنج (بہار)
لفظ” ماں ” کتنا خوبصورت ہے ممتا اور محبت کاساگر اور الفت وانسیت کا گنجینہ ہے بار بار اس ساگر محبت سے سیراب ہونے کو جی چاہتا ہے ۔۔۔ قادر مطلق نے اپنی قدرت کاملہ سے حضرت آدم و حوا ( علیہ السلام ورضی اللہ تعالیٰ عنھا) سے توالد وتناسل کا سلسلہ شروع فرمایا اور اس فانی دنیا کو اولاد آدم سے بھردیا ۔ حکمت خداوندی پر سو جان سے قربان کہ اس نے والدین کے وسیلہ سے عالم رنگ و بو میں اولاد پیدا فرماکر والدین کو شرف علویت و فوقیت سے نوازا اور اولاد کے لیے ان کے ساتھ حسن سلوک کا برتاؤ کرنا ضروری قرار دیا اور اذا رسانی و بد سلوکی سے سختی کے ساتھ روکا ۔ وَبِالوَالِدَینٍ اِحسَانًا اِمَّا یَبلُغَنَّ عِندَکَ الکِبَرُ اَحدُھُمَا اَو کِلَاھُمَا فَلَاتَقُل لَّھُمَا اُفٍّ وَّ لَاتَنھَر ھُمَا وَقُل لَّھُمَا قَولاً کَرِیمًا۔ (بنی اسرائیل)
اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہوں ( اف تک ) نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا ۔ (کنز الایمان)
اللہ رب العزت کی قدرت و مشیت سے لڑکی ماں اور لڑکا باپ کی شرفیت سے نوازا جاتا ہے اس میں اولاد کے لیے ناقابل فراموش درس حیات ہے کہ وہ اپنا مستقبل پیش نظر رکھے اور حال میں اپنے ضعیف و کمزور ماں ، باپ کو فراموش نہ کرے اس لئے کہ ایک وقت انہیں بھی اس عمر ضعف کاسامنا کرنا ہوگا ۔۔ ایک عقیل وفہیم پر یہ بات مخفی نہیں کہ ایک بچہ کی پرورش اور نشوونما میں ماں کا کیا کردار رہاکرتا ہے ۔ماں اپنی اولاد کی پرورش اور دیکھ بھال میں اپنا سارا درد وغم بھول جاتی ہے ،اپنی آسائش اپنا آرام سب بھول جاتی ہے ، اپنی اولاد کے سکون و راحت کے لئے خودرفتہ ہوجاتی ہے اور وہ اپنے لاڈلوں کی خوشی وراحت ہی کو اپنے لئے سرمایۂ حیات سمجھتی ہے ۔ وہ اولاد کی خوشی کو اپنی خوشی اور ان کی پریشانی کو اپنی پریشانی سمجھتی ہے اس لئے قرآن کریم اولاد سے والدین کے لئے دعا کا اس انداز میں مخاطب ہے "قُل رَّبِّ ارحَمھُمَا کَمَارَبَّیٰنِی صَغِیرًا ” (بنی اسرائیل)
اور عرض کر اے میرے رب تو دونوں پر رحم کر جیساکہ ان دونوں نے مجھے چھٹپن ( چجوٹی عمر ) میں پالا ۔ (کنز الایمان)
اولاد کے ساتھ ماں کا یہ لگاؤ پچپنہ تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ اولاد بڑی ہوجاتی ہے اور حسن قسمت سے عزت و آرام کی زندگی نصیب ہوتی ہے تو ماں آرام و سکون کی سانس لیتی نظرآتی ہے اور اگر پریشانی و مصیبت سے دوچار ہے تو ماں سکون سے نہیں بیٹھتی۔اس ماں کا کوئی بھی اولاد حق ادا نہیں کرسکتی ہے ۔ سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمة والرضوان نے اس ضمن میں احکام شریعت میں ایک حدیث نقل کی ہے آپ لکھتے ہیں کہ "حدیث شریف میں ہے ایک صحابی رضی اللہ تعالی عنہ نےحاضر ہوکر عرض کی یارسول اللہ ایک راہ میں ایسے گرم پتھروں پر کہ اگر گوشت کا ٹکڑا ان پر ڈالا جاتا کباب ہوجاتا چھ میل تک اپنی ماں کو اپنی گردن پر سوار کرکے لے گیاہوں کیا اب میں اس کے حق سے بری ہوگیا ہوں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( ترجمہ) تیرے پیدا ہونے میں جس قدر دردوں کے جھٹکے اس نے اٹھائے ہیں شاید یہ ان میں ایک جھٹکے کا بدلہ ہو سکے ۔ (احکام شریعت حصہ اول)
ہاں ! یہی ماں بیٹا نے اگر ان کی رضا مندی و خوشنودی حاصل کرلیا تو ہر دم ان کی دعا اپنے بیٹا کے حق میں ہوتی ہے ،ماں کی مانگی ہوئی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں ، ماں کی دعاؤں کے صدقہ میں بیٹا آرام و عافیت ،چین وسکون کی زندگی گزارتا ہے ۔ اور ہاں بدبخت اور بد نصیب ہیں وہ لوگ جن کی مائیں ان سے ناراض و ناخوش رہتی ہیں اور وہ کبھی ان کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتے ایسے لوگ ناکام اور نامراد انسان ہیں اندیشہ ہے ان کی اولاد بھی ان کے ساتھ ان جیسا ہی سلوک کرےگی۔
ابن ماجہ نے ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ والدین کے اولاد پر کیا حق ہے ۔فرمایا وہ دونوں تیری جنت و دوزخ ہیں یعنی ان کو راضی رکھنے سے جنت ملے گی اور ناراض رکھنے سے دوزخ کے مستحق ہوگے ۔ (بہار شریعت حصہ۱۶)
ماں کی اطاعت و خدمت حصول جنت کا ذریعہ ہے اولاد ماں پاپ کی فرماں برداری کرکے جنت جیسی عظیم نعمت حاصل کرسکتا ہے ماں کی خدمت واطاعت غزوہ (جہاد) میں شرکت سے بہتر ہے ۔
امام احمد ونسائی نے و بیہقی نے معاویہ بن جاہمہ سے روایت کی کہ ان کے والد جاہمہ حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یارسول اللہ میرا ارادہ جہاد میں جانے کا ہے ۔ حضور سے مشورہ لینے کو حاضر ہوا ہوں ۔ ارشاد فرمایا : تیری ماں ہے ۔ عرض کی ہاں فرمایا اس کی خدمت لازم کرلے کہ جنت اس کے قدم کے پاس ہے ۔ (بہار شریعت حصہ ۱۶)
ماں کا کتنا بلند مقام ہے ۔ قیامت کے دن اللہ رب العزت اپنے فضل و کرم سے اپنے صالح بندوں کو جنت سے نوازے گا وہاں جسے جنت مل گئی وہی مقدر کا سکندر ہے ۔ جس کے حصول کی امید میں اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اوامر کی بجاآوری اور مناھی سے اجتناب کرتے ہیں اور عذاب نار سے پناہ مانگتے ہیں اور جنت پانے کے لیے گرگرا کر دعائیں کرتے ہیں ۔ قرآن کریم میں مختلف مقام پر جنت کا ذکر خیر موجود ہے اس جنت کو اللہ رب العزت نے اولاد کے لیے ماؤں کے قدموں کے پاس رکھ دیا ہے
نکتہ : ذرا غور تو کرو کہ جنت جیسی دولت ماں کی اطاعت و فرماں برداری سے حاصل ہوسکتی تو جو بیٹا ماں کی خدمت کرے کیا اسے دنیا کا چین و سکون حاصل نہیں ہوسکتا ، کیا اسے دنیا کی نعمتیں اور دولتیں حاصل نہیں ہوسکتیں یقینا یہ ساری چیزیں حاصل ہوں سکتی ہیں جنت جیسی عظیم نعمت کے سامنے یہ سب ہیچ ہیں جب جنت مل سکتی ہے تو یہ کیوں نہیں ملے گی اس لیے اولاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلام کے دیگر فرائض بحسن و خوبی ادا کرتے ہوئے اپنے ماں باپ کی رضا و خوشنودی حاصل کرے اور ان کی نافرمانی نہ کرے ۔۔۔۔ آہ ماں ہی وہ چیز جو غمزدوں کو سکون اور روتوں کو سکون بخشتی ہے ماں کا وجود اولاد کے لیے سایہ رحمت ہے ۔جہاں اولاد ہر طرح کا آرام و عافیت محسوس کرتا ہے ۔ افسوس ! اسی ماں کا وجود جب اولاد کی آنکھوں سے اوجھل ہوجاتا ہے تو وہ کتنا دولت و ثروت کا مالک ہو کھویا کھویا رہتا ہے ، غم و اندوہ جزء لاینفک کی حیثیت سے جڑجاتا ہے ۔ پھر اللہ کا کرم ہوتا ہے تو وہ غم و آلام تدریجا ہلکا ہوتا ہے لیکن نیک بیٹا اپنی ماں کی محبتوں اور احسانات کا منکر وفروگزاشت کبھی نہیں ہوتا ۔
کسی نے ماں پر بہترین شاعری کی ہے ۔
ساری زندگی ماں کے نام کرتاہوں ۔
میں خود کو ماں کا غلام کرتاہوں ۔
جنہوں نے کی زندگی اولاد پہ نثار ۔
جو ہیں مائیں ان کو سلام کرتاہوں ۔
جہاں دیکھتاہوں لفظ ماں لکھا ہوا
چومتاہوں اس کا احترام کرتاہوں ۔
میری زبان کو مل جاتی ہے مٹھاس ۔
جب بھی ماں سے کلام کرتاہوں
۔
پاک پروردگار ہمیں والدین کی اطاعت و فرماں برداری کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ۔