افسانہ نگار: شیخ اعظمی
میں شادی کی پہلی رات خوشی خوشی کمرے میں داخل ہوا بیڈ پر بیٹھتے ہوئے میں نے سلام کیا اور جیب سے منہ دکھائی کی انگوٹھی نکالنے لگا اس نے آہستہ سے سلام کا جواب دیا میں نے پہلے دیدار کے لیے جب گھونگھٹ اٹھایا تو دیکھا کہ اس کے چہرے پر فکر و تشویش کے آثار نمایاں ہیں مسکراہٹ کی جگہ اداسی چھائی ہوئی ہے میں نے انگوٹھی پہنانے کے لیے جونہی ہاتھ بڑھایا تو وہ مجھ سے کہنے لگی : مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے امید ہے کہ مایوس نہیں کریں گے میں نے کہا : فرمائیں کیا کہنا چاہتی ہیں ؟ بولی : پہلے وعدہ کریں کہ غصّہ نہیں کریں گے میں نے کہا : فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے جو پریشانی ھے صاف صاف بتلائیں ہر مشکل میں اپنے ساتھ کھڑا پائیں گی
بیوی: میری آپ سے ایک گزارش ہے کہ آپ میرے قریب نہ آئیں
میں : کیا مطلب ؟ میں سمجھا نہیں تھوڑی وضاحت کریں
بیوی : میں آپ کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرنا نہیں چاہتی
مجھے اچانک جھٹکا لگا میں نے حواس پر قابو کرتے ہوئے پوچھا: تو پھر کیا چاہتی ہیں ؟ بیوی: بس یہی کہ میں آپ کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی
اس کی کوئی خاص وجہ ؟ میرا مطلب ہے کہ مجھ میں کچھ کمی ہے یا پھر آپ کسی اور کو پسند کرتی ہیں؟
بیوی: نا تو آپ میں کچھ کمی ہے اور نا ہی میں کسی اور کو پسند کرتی ہوں
میں :(تھوڑے ترش لہجے میں) تو کیا چاہتی ہیں ؟ کہنے لگی بات دراصل یہ ہے کہ مجھے ڈاڑھی والے لوگ بحیثیت شوہر بالکل پسند نہیں ہیں میں بغیر ڈاڑھی والے کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں
میں: (اس بار تھوڑا غصے میں) اگر ڈاڑھی والے ناپسند ہیں تو پھر شادی ہی کیوں کی؟
وہ : انگیجمنٹ کے وقت مجھے بالکل علم نہیں تھا کہ آپ ڈاڑھی والے ہیں جس وقت معلوم ہوا اس وقت بہت دیر ہوچکی تھی شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں خاندان بھر میں خوشی کا ماحول تھا میں اس وقت انکار کرکے اہل خانہ اور والدین کو ناراض کرنا نہیں چاہتی تھی خصوصاً والد صاحب جو عرصے سے سخت بیمار تھے ان پر دل کا دورہ پڑنے کا اندیشہ تھا اسی لیے میں نے سکوت ہی بہتر سمجھا اور تہیہ کرلیا کہ شادی کے فوراً بعد آپ سے طلاق لے لوں گی
میں نے کہا : کیا آپ نے شادی بیاہ کو گڈے گڑیا کا کھیل سمجھ رکھا ہے چٹ شادی پٹ طلاق اور آپ نے شادی سے پہلے یہ تو سوچ لیا کہ انکار پر سب ناراض ہوجائیں گے لیکن یہ نہیں سوچا کہ شادی کے فوراً بعد طلاق سے بوڑھے والدین پر کیا گزرے گی دونوں خاندانوں کا جو لاکھوں کا خرچہ ہوا ہے اس ک ہوگا اور دونوں خاندانوں کی جو بدنامی ہوگی وہ الگ رہی
بیوی : (روہانسی ہوکر) پھر آپ بتائیں میں کیا کروں
جو کرنا ہے کرو پر میرا دماغ مت خراب کرو
بیوی : آپ ناراض ہورہے ہیں جبکہ آپ نے کہا تھا ک غصہ نہیں کروں گا اور ساتھ میں یہ وعدہ کیا تھا کہ ہر مشکل میں ساتھ پاؤ گی آپ تو پہلی ہی مشکل میں ساتھ چھوڑ رہے ہیں جبکہ مجھے آپ کے ساتھ کی ضرورت ہے میں نے تو آپ کو کسی دھوکے میں نہیں رکھا جو سچ تھا وہ آپ کے سامنے واضح کرکے پیش کردیا میں نے کہا کہ میں آپ کو از خود طلاق نہیں دے سکتا البتہ آپ کو خلع کا اختیار ہے ” میں خلع لینے پر راضی ہوں "
ٹھیک ہے لیکن میری ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ خلع نامہ میں آپ کو یہ باوضاحت لکھنا ہوگا کہ میں اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے خلع لے رہی ہوں میری یعنی شوہر کی کسی کمی کی بنا پر نہیں ” کہنے لگی ٹھیک ہے لیکن مجھے کچھ وقت درکار ہے میں نے کہا ٹھیک ہے آپ کو جتنا وقت چاہیے لے لیں لیکن خیال رہے کہ پانی سر سے نہ گزر جائے بولی: ٹھیک ہے اس غیر متوقع گفتگو کے بعد میں سونے کے لیے صوفے کی جانب چلا گیا۔
(جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔)