تحریر : محمد ہاشم القادری
لفظ قربانی یہ قَرَبَ يَقْرُبُ سے مصدر فُعْلان کے وزن پر ہے و اقوال دیگر اسم فاعل کا صیغہ ہے ضُرْبان کے وزن پر اور آخر میں یائے نسبتی لگانے سے قربانی ہوگیا
مخصوص ایام میں مخصوص جانوروں کو تقرب کی نیت سے ذبح کرنا قربانی و اضحیہ کہلاتا ہے
یہ قربانی کا سلسلہ مختلف دستور و طریقے سے ابتدائے آفرینش سے چلا رہا ہے جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے وَلِکُلِّ اُمَّۃِِ جَعَلْنا مَنْسَکاً لِّیَذْکُرُوا الخ (سورہ حج)
مذکورہ آیت کریمہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہر دور میں قربانی ہوتی رہی ہے حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت ابراہیم علیہ السلام تک اور حضرت ابراہیم علیہ سے لیکر ہمارے آقا علیہ التحیۃ الثنا تک!
اگر چہ طریقے مختلف رہے لیکن سب کا مقصد اصلی تقرب الٰہی و رضائے الٰہی ہی رہا ہے!
رب قدیر ارشاد فرماتا ہے فَصَلِّ لِرَبِّک وَانْحَرْ (سورہ کوثر)
اے محبوب نماز پڑھیں اور قربانی کریں
(ٹوٹ) بعض مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ نماز سے مراد عید الاضحٰی کی نماز ہے
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا مَا ھَذِہِ الاَضَاحِیْ یَا رَسُوْلَ اللٰہِ صَلَّی اللّٰہ تَعاَلَی عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ یا رسول اللہ قربانی کیا ہے قَالَ سُنَّۃُ اَبَیْکُمْ اِبْرَاھِیْمَ فرمایا تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے صحابہ نے عرض کیا فَمَا لَنَا فِیْھَا یَا رَسُولَ اللّٰہَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم یا رسول اس میں ہمارے لئے کیا ہے حضور نے ارشاد فرمایا بَکُلِّ شَعْرَۃِِ حَسَنَۃ ہر بال کے بدلے نیکی ہے
قربانی کے فضائل کو بیان کرتے ہوئے آقائے دو جہاں علیہ التحیۃ و الثنا ارشاد فرماتے ہیں مَا عَمِلَ اٰدَمِیُُّ مِّنْ عَمِلَ یَوْمِ النَّحْرِ أَحَبُّ أِلَی اللہِ مِنْ أِھْرَاقِ الدَّمِ (الحدیث)
قربانی کے دن اللہ کے نذدیک کوئی عمل خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی تعالیٰ علیہ والہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو آسودہ حال ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہمارے عید گاہ کے قریب نہ آئے
حدیث پاک ہے یَأَیُھَا النَّاسُ، اِنَّ عَلٰی کُلِّ اَھْلِ بَیْتِِ فِی کُلِّ عَامِِ اَضْحِیَّۃً (الحدیث)
اے لوگوں ہر سال ہر گھر والوں پر قربانی کرنا لازم ہے
قربانی کے فوائد
رب قدیر کی اجتماعی عبادت کا منظر پیدا ہوجاتا ہے
مسلمانوں کی اجتماعی قوت نمایاں طور پر ظاہر ہو جاتی ہیں
جن لوگوں کو سال بھر گوشت نصیب نہیں ہوتا ہے ان کو بھی وافر مقدار میں گوشت حاصل ہوجاتا ہے
جب قربانی کی کھالیں فروخت یوتی تھیں تو غرباء و مساکین بالخصوص مدارس کے امداد ہو جایا کرتے تھے
مختلف مصنوعات جو کہ چمڑے اور ہڈیوں سے تیار کئے جاتے ہیں ان کے لئے بھی وافر مقدار میں مٹیریل مہیا ہوجاتے ہیں
اگر دیکھا جائے تو قربانی کا ہر چیز گوشت پوست بال کھال ہمارے فائدے کا ہے اس کے باوجود اللہ کو کیا مطلوب ہے ارشاد فرمایا لَن یَنَالَ اللہ لُحُوْمُھَا وَ لَا دِمَآؤُھَا وَ لَٰکِن یَنَالُہُ التَّقْوَیٰ مِنْکُم (سورہ حج) اللہ کو تمہاری قربانیوں کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ اس کے پاس تو تقوی پہنچتا ہے
لہذا چاہئے کہ قربانی صرف اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے ہو دکھاوا و ریاکاری سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو رب قدیر کو صرف اخلاص و تقوی مطلوب ہے
رب العزت سب کو اخلاص و للہیت کے ساتھ قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔