تاریخ کے دریچوں سے سیاست و حالات حاضرہ

13 اگست کانگریس حکومت اور مسلمانوں کا قتل عام

ازقلم: محمد عفان الحسینی


آج 13 اگست ہے ، یہ تاریخ اپنے آپ میں ایک خونی داستان سمیٹے ہوئے ہے ، 13 اگست کے آتے ہی مرادآباد کی کوئی ماں اپنے بڑھاپے کی لاٹھی، اپنے شہید لاڈلے کو یاد کرکے روتی ہے ، کوئی باپ اپنے لخت جگر کی یاد میں تڑپ رہا ہوتا ہے ، کوئی بہن اپنے مرحوم بھائی کے لئے تنہائیوں میں آنسو بہارہی ہوتی ہے ، غرض یہ کہ ہر ایک اپنے اپنے شہیدوں کو یاد کرکے وحدہ لاشریک سے یہ فریاد کررہا ہوتا ہے ، خدا یا ہم بے بس ، لاچار مجبور ہیں ، تو ہی بہترین بدلہ لینے والا ہے ، جی ہاں میں بات کررہا ہوں 13 اگست 1980 کی ،جب مرکز اور صوبے میں کانگریس کی سرکار تھی ، اور مسلمانوں کا سب سے بڑا تہوار عید کا دن تھا ، لیکن کسے معلوم تھا کہ یہ دن عید کا نہیں ، بلکہ مرادآباد کے مسلمانوں کے لئے قیامت کا دن ہوگا ، عید کے دن چھوٹے، بڑے ،بوڑھے، جوان ، ہر ایک نئے لباس میں ملبوس ، اپنے اپنے محبین والدین، دوست و احباب، اعز و اقربا سے گلے مل کر شکر خداوندی بجالانے کے لئے عید گاہ پہنچے تھے ، جہاں پہلے ہی سے بھاری تعداد میں کانگریس کی پروردہ فورس تعینات تھی،کہا جاتا ہے عیدگاہ میں موجود 50000 سے زائد مسلمان جیسے ہی نماز کے لئے کھڑے ہوئے ، عید گاہ میں سور کے گھسنے کی خبر سے افراتفری کا ماحول بن گیا ( اتنی بڑی فورس کی موجودگی میں سور کا گھسنا سوچی سمجھی سازش تو نہیں )جس کے نتیجے میں فورس سے "تُو تُو مَیں مَیں ” کا دیش دروہی جیسا جرم عظیم مسلمانوں سے صادر ہوگیا ، پھر کیا تھا وردی میں ملبوس کانگریس کے سرکاری غنڈوں کا پارہ ہائی ہوگیا، ان غنڈوں نے اپنی بندوقوں کے رخ نمازیوں کی طرف پھیر کر اندھا دھند فائرنگ شروع کر بے قصور مسلمانوں کو گولیوں سے بھون کر دوسرا جلیاں والا باغ بناڈالا، جسکے نتیجے میں 400 مسلمان شہید ہوگئے ،
قارئین! یہ کوئی ہندو مسلم فساد نہیں تھا ، یہاں کوئی جے شری رام کے نعرے لگانے والا نہیں تھا ، بلکہ یہ کانگریس کی پالی پوسی ہوئی فورس تھی ، جس نے مسلمانوں کے ساتھ یہ قتل عام کیا تھا ، یہ تاریخ جب آتی ہے تو آنکھیں بھر آتی ہیں ، ایک طرف چھوٹے بچے گھروں میں اپنے والد کی آمد کے منتظر تھے تاکہ ان سے عیدی لے سکیں ، مائیں بہنیں، بیویاں ،سوئیاں بناکر اپنے محبوبوں کا منھ میٹھا کرنے کا انتظار کررہی تھیں، اور دوسری طرف کانگریس کے غنڈوں نے انکی نمازِ عید کو نماز جنازہ بنادیا ، لیکن افسوس ہے ہمیں 2002 کا گجرات دنگا یاد ہے ، جسکا مجرم ہم نریندر مودی کو مان کر اپنا قاتل سمجھتے ہیں ، 2012 کا مظفر نگر میں مسلمانوں کے قتل عام کو یاد کرکے اکھلیش کو اپنا قاتل مانتے ہیں ، 2020 دہلی فساد کا مجرم کیجریوال کو مان کر اپنا دشمن سمجھ چکے ہیں ، لیکن مرادآباد کے قتل عام کو بھلاکر قاتلوں کی اولادوں کو اور کانگریس پارٹی کو اپنا مسیحا سمجھ بیٹھے ہیں،یہ ہماری بھول ہے ، خدارا اپنے قاتلوں کو ، آستین میں بیٹھے سانپوں کو پہچانئے، اور اپنے ووٹ کا استعمال کرکے اقتدار کو انکے لئے بس ایک خواب بنادیجئے، انہوں نے آپ کا ووٹ لے کر آپ کو استعمال کیا ہے اور استعمال کرتے رہیں گے ، اس لئے اپنی قیادت کو مضبوط کرکے سیاست میں اپنا ایک مقام بنائیے ورنہ اس ملک میں آپ کو صرف مرادآباد جیسے قتل عام ملیں گے ،
13 اگست 2021

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے