تحریر: محمد عباس الازہری
انسانی حقوق کی ایک تنظیم کا کہنا ہے کہ ملک میں مسلمانوں کو تعلیم اور روزگار کے معاملات میں امتیازی سلوک اور تعصب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور حجاب کے باعث مسلم خواتین کو نوکریاں نہیں دی جا رہی ہیں اور مسلم طالبات کو اپنے لباس کے باعث تعلیمی اداروں میں کلاسیں لینے سے روکا جا رہا ہے اور مسلمان مردوں کو داڑھی رکھنے کی پاداش میں ملازمتوں سے برطرف کیا جا رہا ہے اور سیاسی جماعتیں اور حکومتی عہدیدار مسلمانوں کے خلاف تعصب کو دور کرنے کے بجائے ووٹوں کےحصول کی خاطر الٹا اسے پروان چڑھا رہے ہیں اور حالیہ دنوں میں متعصبانہ سلوک کے کئی واقعات دیکھنے کو ملے ہیں اور کچھ کمپنیاں مسلمانوں کے مذہب کو بنیاد بناتے ہوئے انہیں ملازمتیں دینے سے انکار کر رہی ہیں جس کے باعث مسلمانوں میں بےروزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے تعصب کے سلسلے میں ملک کے انسدادِ تعصب کے قوانین بے اثر نظر آ رہے ہیں, اظہارِ رائے اور اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے کی آزادی کے بنیادی حق کی خلاف ورزی کھلم کھلا کی جا رہی ہے, اہل اقتدار کا مسلمانوں کے حوالے سے منفی تاثر اور موجود تعصب کو دور کرنے کے لیے اقدامات نہ کرنا اور انسانی حقوق کے معاملے کو پس پشت ڈالنا قابلِ افسوس ہے,
تمام افراد کو احتجاج کا حق حاصل ہے چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب یا فرقے سے ہو، سب کا احترام کرنا چاہیے لیکن مسلمانوں سے یہ حق بھی چھینا جا رہا ہے ,منظم اور منصوبہ بند طریقے سے امتیازی سلوک و برتاؤ کیا جا رہا ہے اور ایسی پالیسیاں اور قوانین وضع کیے جا رہے ہیں جو مکمل طور پر اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک پر مبنی ہیں اور اس قسم کی” منافقانہ سیاست” اقلیتوں کے خلاف تشدد میں اہم کردار ادا کر رہی ہے ان منافقانہ پالیسیوں نے آزاد اداروں کو بھی اپنی گرفت میں لے لیاہے، جس کے تحت پولیس نے شر پسند عناصر کو اقلیتوں پر حملے کرنے,دھمکیاں دینے اور ہراساں کرنے
کے لئے بااختیار بنا دیا ہے اور مسلمانوں کے حوالے سے” متعصابانہ رویہ اور امتیازی سلوک ” کو مندرجہ ذیل تحریر سے بخوبی طور پر سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک طرف :
✓” آئین کے آرٹیکل ١٥ اور ٢٥ کے مطابق ہندوستانی آئین میں تمام شہریوں کو بغیر کسی امتیاز کے بنیادی حقوق دیئے گئے ہیں۔
✓” آرٹیکل ١٥(١) کے مطابق ریاست کسی بھی شہری کے ساتھ ذات پات، مذہب، جنس، جائے پیدائش اور نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کر سکتی ” اور دوسری طرف آئین و دستور کے مطابق ملک چلانے کا حلف لینے والے بالکل اس کے برعکس کر رہے ہیں !
١_ ایپل فون کے مینیجر وویک تیواری کو لکھنؤ میں پولیس کانسٹیبل پرشانت چودھری نے قتل کر دیا, وزیر اعلیٰ نے فوراً وویک تیواری کی اہلیہ کلپنا تیواری سے ملاقات کی اور پھر کلپنا نے کہا کہ ’’ وزیر اعلی سے ملاقات کے بعد حکومت میں میرا اعتماد اور بھروسہ بڑھ گیا ہے‘‘۔ اتر پردیش حکومت کی طرف سے فوری طور پر چالیس لاکھ روپے کا کل معاوضہ خاندان کے حوالے کیا گیا، جس میں پچیس لاکھ کا چیک متوفی وویک کی اہلیہ کلپنا تیواری اور پانچ لاکھ چھوٹی بیٹی اور باقی بڑی پریانشی تیواری کو دیا گیا اور ویویک تیواری کی اہلیہ کلپنا تیواری کو لکھنؤ میونسپل کارپوریشن میں او ایس ڈی کے عہدہ پر تقرری کا لیٹر دیا گیا
مزید برآں لکھنؤ میں ایک گھر دیا گیا اور وویک تیواری کے بچوں کو ریاستی حکومت نے تاحیات تعلیم فراہم کرنے کا اعلان کی ۔
٢_ گورکھپور میں کانپور کے تاجر منیش گپتا کی پولیس کے ہاتھوں قتل کے بعد وزیر اعلی نے فوری طور پر منیش کی بیوی میناکشی گپتا سے ملاقات کی، اور میناکشی گپتا نےکہا کہ "وہ ان کی یقین دہانیوں اور فوری کارروائی سے بہت مطمئن ہے” اور میناکشی تیواری کو کانپور ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں او ایس ڈی کے عہدہ کے لیے چالیس لاکھ روپے کی مالی امداد اور ایک سرکاری نوکری دی گئی۔اور سماجوادی پارٹی کی طرف سے سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو نے بھی بیس لاکھ روپئے کی مدد کی، اور تمام پارٹیوں کے رہنما جا کر میناکشی سے ملے۔
٣_پولس حراست میں صفائی کرمچاری ارون والمیکی کی موت پر حکومت نے دس لاکھ کا معاوضہ دیا اور خاندان کے ایک فرد کو سرکاری نوکری کا یقین دلایا۔اور کانگریس پارٹی کی طرف سے پرینکا گاندھی بھی گئیں اور اس کے خاندان کو گلے لگایا، اکھلیش یادو نے ₹ دس لاکھ روپئے دیئے اور حکومت سے دو کروڑ روپئے کے معاوضے کا مطالبہ کیا۔
دوسری طرف :
• ایک دو دن پہلے الطاف کو کاس گنج میں پولیس حراست میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا۔ نہ وزیر اعلیٰ، نہ پرینکا گاندھی اور نہ ہی اکھلیش یادو اور نہ ہی ان کے مسلم لیڈر ملے اور نہ ہی کسی نے انہیں جانے کے لیے مجبور کیا!اور حکومت نے خاندان کو پانچ لاکھ روپئے کے معاوضے کی یقین دہانی کرائی اور والد کو ایک سفید جھوٹ پر مشتمل بیان پر انگوٹھا لگوا لیا اور چھ فٹ چھ انچ کے الطاف نے تین فٹ کی ٹوٹی سے جھول کر خودکشی کر لی یہ بیان پولیس نے دیا ! یہی "منو سمرتی نظام” ہے جہاں مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر انصاف ہوتا ہے جیسا کہ جسٹس راجندر سچر کے مطابق مسلمان دلتوں سے بھی بدتر ہیں! اب ذرا سوچیں کہ دستور و آئین کہاں ہے؟ اس کے برابری کے حق کا آرٹیکل ١٥ کہاں ہے؟ اور مسلم رہنما کہاں ہیں؟ اور سب سے بدترین وہ لوگ ہیں جو اپنی پارٹی کے غلام ہیں، جو چھوٹے عہدے اور اہمیت حاصل کرنے کے لیے قوم و ملت کا سودا کرتے ہیں !جاری ۔۔۔