از قلم: محمد احمد رضا برکاتی مصباحی
گھٹ پربھا، کرناٹک
دن ڈھلنے کے قریب تھا…… سورج اپنی تمازت کھو چکا تھا……اطراف عالم پر ہلکی ہلکی سیاہی پھیل رہی تھی…… لوگ اپنے گھروں میں برقی لائٹیں یا پھر دیے روشن کر رہے تھے…… لوگ عام طور اپنے اپنے گھروں کی جانب لوٹ رہے تھے…… اور کچھ شام کے سہانے موسم سے لطف اندوز ہونے کے لیے چہل قدمی کررہے تھے…… ہم نے بھی سوچا چلو کچھ دیر ٹہل لیتے ہیں…… گھر کے دروازے سے نکل کر راستے پر آتے ہیں…… راستے کا ایک کنارہ پکڑ کر ہم چلنا شروع کرتے ہیں…… کچھ دور ابھی چلے ہی ہوتے ہیں کہ ایک رفیق سے ملاقات ہوجاتی ہے…… سلام علیک کے بعد رسمی گفتگو کا آغاز ہوتا ہے…… رفیق محترم کہتے ہیں…… یار من آج کل جب بھی اخبار اٹھاؤ مسلمانوں کی جانی و مالی نقصان کی خبر ہی نظر نواز ہوتی ہے…… سچ بولوں تو مسلمانوں کی یہ زبوں حالی اب دیکھی نہیں جاتی…… جہاں دیکھو وہیں مشق ستم بنایا جا رہا ہے…… ابھی حال ہی میں ہوئے حادثہ برما کی درد ناک اور دل سوز تصاویر ، ویڈیوز اور خبریں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آجاتا ہے……چھوٹے چھوٹے بچے بلک رہے ہیں…… رو رہے ہیں…… چینخ رہے ہیں…… چلا رہے ہیں…… بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہورے ہیں…… لوگوں کو مارا جارہا ہے…… کاٹا جارہا ہے…… بلکہ اب تو جلایا بھی جارہا ہے…… آنکھیں چشم حیرت سے کھلی کی کھلی رہ جارہی ہیں…… لیکن اب تک کوئی لائحہ عمل ہمارے پاس نہیں ہے…… ملت فراموش ، مردہ ضمیر نام نہاد قائدین اور حکمراں اعلی کوٹھیوں میں بیٹھ کر عیش و مستی میں مگن ہیں…… انھیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ملت ستائی جارہی ہے…… خدا امت محمدیہ کے جان ،مال ،عزت اور آبرو کی حفاظت فرمائے……ابھی گفتگو جاری ہی تھی کہ ایک آواز کانوں سے ٹکراتی ہے…… بیٹا آپ آج کالج کیوں نہیں گئے تھے…… بیٹا….. آنا کانی کرتے ہوئے…… اپنے بچاؤ میں کہتا ہے…… مما فلاں جگہ آج کرکٹ کا شو چل رہا تھا…… اسے دیکھنے کے لیے چلا گیا تھا…… جنرل نالج کے لیے یہ بھی ضروری ہے نا…… ماں نے اسے کچھ کہا پھر چلی گئی…… میں اپنے اندر سوئے ہوئے ضمیر سے پوچھنے لگا…… یار تو بتا یہ بچہ ایک دن آج کالج نہیں گیا…… تو گھر کے ہر فرد کی جانب سے یہ آوازیں آنے لگیں کہ کدھر گیا تھا……ماں الگ پوچھ رہی تھی…… باپ الگ غصہ ہورہا تھا…… بڑا بھائی الگ چلا رہا تھا……بہنیں الگ چینخ رہی تھیں…… لیکن یہی بچہ کبھی بھی تو مسجد آتے جاتے نہیں دکھا…… تو کیا اس غیر حاضری پر بھی یہ لوگ اتنے ہی نالاں ہوں گے…… جتنی اسکول کی غیر حاضری پر ہوئے…… کیا کبھی اس کے ماں باپ نے یہ پوچھنے کی زحمت کی ہوگی کہ بیٹا تو آج نماز فجر کے لیے مسجد کیوں نہ گیا…… کیا کبھی اس بات پر بھائی ڈانٹا کہ ظہر کی نماز کیوں نہیں ادا کی…… ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے اس کے جواب کا میں منتظر تھا…… اور اپنے دل کو جھوٹی تسلی دے رہا تھا کہ نہیں نہیں انھوں نے پوچھا ہوگا…… میں نے تو اپنے ضمیر کو جھوٹی ہی سہی تسلی دینے کی ناکام کوشش کررہا تھا لیکن یقین کیسے کراؤں یہ سمجھ سے اب بھی میلوں دورہے……یہ ہمارے معاشرے کی ایک حقیقی تصویر ہے…… ہم گر اپنا محاسبہ کریں گے تو یہ بات عیاں ہوجائے گی…… کہ یہ صرف ایک گھر کی نہیں بلکہ ہر گھر کی یہی حالت ہے…… فکر روزی کے چکر میں عطائے بے نوال کو بھول گئے ہیں……دنیاوی مفاد کی خاطر حقیقی مقصد کو فراموش کر چکے ہیں…… ہماری جب یہی حالت ہے تو کیوں نہ ظالم ہم پر مسلط کیے جائیں گے…… ہم ذرا تنہائی میں غور کریں ہم اپنے معبود کی کتنی فرماں برداری کر رہے ہیں…… یہ ہر ایک کو سوچنے کی ضرورت ہے…… اب بھی وقت ہے حالات سے نپٹ لیں…… خوب صورت اور بہترین معاشرہ کے لیے تگ و دو کریں…… ورنہ ہماری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں