سلطان اسلام جلیل القدر صحابی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فتوحات
اثر خامہ: سید صابر حسین شاہ بخاری قادری
سلطان اسلام جلیل القدر صحابی حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ (پ: بعثت نبوی سے پانچ سال قبل 605 عیسوی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔م: 22/رجب المرجب 60ہجری) کسی تعارف کے محتاج نہیں، اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم کو پاک سمجھنا اور ان کا ذکر کلمۂ خیر سے کرنا ، ان کے آپس میں جو بھی مشاجرات وغیرہ ہوئے، ان میں خاموشی اختیار کرنا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان جو کچھ بھی ہوا اس پر ہمارے اکابرین لکھ چکے ہیں کہ اس میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم حق پر تھے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ غلطی پر تھے اور ان کی یہ خطائے اجتہادی تھی۔۔ اس سے زیادہ بحث و تمحیص میں الجھنا نامناسب ہے ۔
ہمارے پیشوا اور آقا حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنے نانا اورہمارے پیارے مخبر صادق نبی کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد پاک کے مطابق ان سے صلح کرلی اور انہیں بادشاہ تسلیم فرما لیا۔ لہذااب کسی سید زادے کو ان سے عناد نہیں رکھنا چاہیے اور یزید پلید لعین سے حضرت سیدنا امام حسین شہید کربلا رضی اللہ عنہ نے جنگ کی تو لہذا اب کسی سید زادے کو یزید اور یزیدی قوتوں سے کبھی بھی صلح نہیں کرنی چاہیے۔ سلطان العارفین حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اپنی ایک کتاب میں واشگاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ:
” بایزید بن ، یزید نہ بن”
حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اسلامی تاریخ میں ملوک اول اور پہلے بادشاہ ہیں ۔ آپ عظیم الشان اسلامی سلطنت کے حکمران رہے ہیں۔ آپ کے دور حکومت میں بے شمار فتوحات ہوئیں اور اسلام کی تبلیغ واشاعت کی راہیں ہموار ہوئیں۔
43ھ میں بسر بن ارطاۃ رضی اللہ عنہ نے بلاد روم پر حملہ کیا قسطنطنیہ تک فتوحات حاصل کیں۔
44ھ میں مہلب بن ابی صغری نے سرزمین ہند کا رخ کیا اور کئی علاقے فتح کیے۔
عبداللہ بن عامر نے طبرستان فتح کیا،
46ھ میں طرابلس فتح ہوا، افریقہ کے کئی علاقے فتح ہوئے، ان میں جلو لاء 50ھ میں ،نبرات 44ھ میں، سوسہ 45ھ میں، نورتہ 41ھ میں ، زناتہ 41ھ میں اور غدامس 42ھ میں فتح ہوئے ، اسی طرح سوڈان برقہ ، جزیرہ صقلیہ، قرطاجنہ اورمیلہ جیسے علاقے بھی فتوحات میں شامل ہیں۔
اسی طرح بلاد غرب، کابل، طخارستان، زخج، ترکستان ، بنوں، سمر قند، قسطنطنیہ، روڈس اور ارواڈ جیسے علاقے آپ کے دور حکومت میں فتح ہوئے،فتوحات کی راہ میں کئی رکاوٹیں آئیں لیکن دور ہوتی گئیں کئی فتنے اٹھے لیکن دم توڑ گئے، آپ ہی کے دور میں ایک جھوٹی مدعیہ نبوت عورت سجاح بنت تمیمیہ توبہ کر کے اسلام کی آغوش میں آئی ۔آپ نے جہاں جہاں فتوحات کیں وہاں مساجد تعمیر کروائیں اور قرآن وحدیث کی تعلیم جاری کروائی ، علم الانساب، سائنسی علوم، کیمیا،نحو،اور کتابت و انشاء کی آب یاری فرمائی، احتساب کا عمل تیز کیا، صنعت وحرفت کو ترقی دی، نظام مملکت میں کئی محکموں کا احیاء کیا، زرعی اصلاحات فرمائیں، عسکری نظام کو مضبوط کیا اور مسلمانوں کے قلوب میں جذبۂ جہاد و شہادت کو تقویت دینے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ اسی طرح عدالتی نظام پر آپ نے خاص توجہ دی، مقدس مقامات کے تحفظ کو آپ کے عہد میں یقینی بنایا گیا۔ آپ کا دور فتوحات اور انقلابات کا تھا، آپ نے نہایت تدبر اور بصیرت سے بے شمار فتوحات فرما کر وہاں اسلام کا جھنڈا لہرایا۔ یوں آپ پینسٹھ لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی سلطنت اسلامیہ چھوڑ کر، اپنی وصیت کے مطابق پیارے آقا و مولا حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک ، ناخن مبارک کے تراشے اور قمیص مبارک اپنے کفن میں شامل کر کے لحد میں چلے گئے۔
لحد میں عشق رخ شہ داغ لے کے چلے
اندھیری رات سنی تھی چراغ لے کے چلے۔