خیال آرائی: اسانغنی مشتاق رفیقیؔ
جب سے وہ تشنہ لوٹے ہیں کوئے حبیب سے
انداز اُن کے لگنے لگے ہیں عجیب سے
تزئین کی ہے اُن کی خدائے جمیل نے
یہ جان لو گے، اُن کو جو دیکھو قریب سے
لہجے میں اُن کے اب وہ شرارت نہیں رہی
شاید کٹا ہوا ہے تعلق رقیب سے
اک میں ہی مبتلا ہوں یہاں درد عشق میں
یا اور بھی ہیں شہر میں پوچھو طبیب سے
فن کار دے گا داد رفیقیؔ تمھیں مگر
کیا خاک داد پاؤگے ان پڑھ غریب سے