تحریر: طاہرالقادری مصباحی نظامی، بستی
آبروۓ سنیت مناظر اہلسنت باباءقوم وملت شیخ طریقت حضرت علامہ مولانا الحاج لیاقت علی اشرفی علیہ الرحمہ والرضوان ایک بے باک حق گوجید عالم دین تھے آپ نے اسلام وسنیت کی خدمت میں اپنی زندگی گزاردی خاص کر سدھارتھ نگر کے دکھنی اورمہراج گنج کے پچھمی دکھنی ،اتری علاقے میں آپ نے جو خدمات انجام دۓ ہیں وہ آب زرسے لکھے جانے کے قابل ہے اگر یہ کہا جاۓ کہ گزشتہ نصف صدی میں اس علاقے میں جو بھی مذہبی بیدار ی آئی ہے اس میں کہیں نہ کہیں بلاواسطہ یا بالواسطہ حضرت علامہ لیاقت علی اشرفی کاکردارہے تو بے جانہ ہوگا ،
اس علاقےمیں اسلام وسنیت کے فروغ کے لیے تین پرانے اداروں کا کلیدی کردار رہا تحصیل نوتنواں بارڈر سے لےکر پورب ٹھوٹھی باری تک اور ادا بازار کے علاقے میں بیروابنکٹوامیں واقع ادارہ دارالعلوم غوثیہ اور تحصیل نوتنواں اتری علاقہ اور تحصیل پھریندہ کالگ بھگ پورا علاقہ بشمول سدھارتھ نگر کاباڈری علاقہ جو مہراجگنج گنج سے ملاہوا ہےاس علاقے میں جامعہ کاملیہ مفتاح العلوم کولھوئی بازار مھراج گنج اور سدھارتھ نگر کے دکھنی علاقے میں دارالعلوم اہل سنت فاروقیہ اشرفیہ نونہواں کااہم کردار ہے اور حضرت علامہ لیاقت علی اشرفی مذکورہ تینوں اداروں میں سے نونہواں اور بیروا بنکٹوا کے ادارے کے بانی کی حیثیت رکھتے ہیں جبکہ اگر چہ کولہو ئی کے ادارے کے بانی کو ئی اور ہیں پھربھی اس ادرے کوعروج عطا کرنے میں آپ کا کلیدی کردار رہااور آپ نے اس ادارے کو اپنے خون جگر سے سیراب کیااس کے بام ودر کی حفاظت کے لئے آپ نے اپنی جوانی قربان کردی ان سارے علاقوں میں پیدل چل کر اسلام وسنیت کے فروغ کےلیے کوشش کی اور انکی کوششیں بار آور بھی ہوئیں آج ان علاقوں میں علماء وحفاظ قراء کی کثیر تعداد موجود ہے پھلے خال خال کھیں کھیں مدارس تھے اور اس وقت ان علاقوں میں آپ کو کوئی ایسا گاؤں نہیں ملےگا جھاں مسلمانوں کی آبادی ہو اوروہاں مدرسہ اور مکتب نہ ہوآج ہر گاؤں میں مکتب مدرسہ موجود ہے اور ان اداروں کے قیام میں کھیں نہ کہیں بابائے ملت کا کردار آپ کو ضرور ملےگا
کولہو ئی بازار چھوڑنے کے بعد بھی آپ اکثر جامعہ کاملیہ میں آیا کرتے تھے دودو دن رہتے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی وہ مجھ کو بہت مانتے تھے بلکہ اپنے یہاں ہونے والے ہر پروگرام میں مجھے وہ مدعو کرتے رہے ایک پروگرام میں
باباء ملت بارعب شخصیت کے مالک تھے آپ نے اسلام وسنیت کی حفاظت وصیانت میں کوئی کسر باقی نہ اٹھا رکھے ایک نجی مجلس میں حضرت علامہ لیاقت علی اشرفی نے خود ہم سے بیان فرمایا
جب میں کولھوئی بازار میں جامعہ کاملیہ مفتاح العلوم کے ذمہ داری کو سنبھالاالحمد للہ علاقہ سنیوں کاتھا وہابیت آہستہ آہستہ اپنا پیر پھیلا رہی تھی جو نکہ اس علاقے میں اس وقت علماء تھے ہی نہیں اس لیے انہیں بہت حد تک کامیابی بھی مل چکی تھی سادہ لوح سنی مسلمان تبلیغ اور مذھب کے نام پر انکے ساتھ گاؤں گاؤں آبادیآبادی جاتے اور آہستہ آہستہ انکے رنگ میں رنگ جاتےعلاقے سے اس طرح کی خبر آنے لگی اپنی مجبوری یہ تھی ایک تو اس علاقےمیں لوکل کے علماء نہیں تھے ،دوسرےہمارےپاس اپنی کوئی تنظیم نہیں تھی جس کےذریعہ انکے مشن کو فیل کیا جاۓ اور اپنی عوام کو بچایا جاسکے اور ہمیں تو دن میں درس وتدریس کی ذمہ داری نبھانی تھی پھر اس کے بعد جب مدرسے سے فرصت ملتی تو عوامی رابطہ میں لگتے نگر اس طرح ہمیں وہ کامیابی نہیں مل پارہا تھی جو ملنے چاہئے تو پھر یہ پلان بنا کہ علاقے میں جلسے کا پروگرام کرایاجا اس سے عوام کو ان کی حقیقت بتا دی جائے گی اور یہ لوگ خود بےموت مر جائیں گے چنانچہ جلسےہو نےشروع ہوۓ انکی اپنی زمین کھسکتی دیکھ کر یہ لوگ دھمکی دینے پر اتر آۓ
اس زمانے میں بیلی گڑہ جلسے کا پروگرام تھا حضرت علامہ مظفر حسین صاحب کیچھوچھوی اور حضرت مولانا ادریس بستوی کو مدعو کیا گیا تھا جب وہابیوں کو اس کاعلم ہوا تو پہلے تو ان لوگوں نے اس جلسے کو رکوانے کے لیے وہاں کیعوام کو ورغلایا جب اس میں کامیاب نہ ہوۓ توپھر میرےپاس یک مولوی کو بھیجے اور کھلوایا کہ اگر جلسہ ہوا تو مار طے ہے اس کی دھمکی سن کر میرا خون کھول گیا اور بے ساختہ میری زبان سےیھی نکلا کہ اپنی زبان کو سنبھالو ورنہ ابھی اٹھا کر زمین پر پٹکونگا تمھارا وجود ختم ہو جائے گا پھر کہنے لگے غصہ تو بہت لگا ہوا تھا اگر وہ میرے ادارے پرنہ رہا ہوتا تو اسے ضرور مارتا مگر اس کی قسمت ٹھیک تھی کی وہ ہمارےمدرسے پر تھا
خیر تاریخ متعینہ پر جلسہ ہوا اور اس جلسے میں ان لوگوں نے جو غنڈئی کی پورے علاقے کی عوام نے دیکھا سنی بے چارے اپنا جلسہ کر رہے تھے اور یہ لیگ اسے درمیان مایک لے کر بن بلائے سنیو ں کےجلسےگاہ میں پہونچ گیے اور نعرےبازی شروع کردیعلماء تو اسٹیج سےسمجھانےکیکوشش کر رہے تھے مگران کے غنڈوں نے کسی کی نہ سنی عوام سے لڑنا شروع کردیا جب سنی عوام کا غصہ پھوٹا ہے تو پھر مت یوچھیۓ پھر عوام نےان بے ایمانوں کی جو دھلا ئی کی ہے پھر وہ جلسہ گاہ سے سر پر پیر رکھ کر بھاگے اور پھر وہ کسی سنی جلسے کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی جرآت نہ کرسکے
حضرت علامہ لیاقت علی اشرفی علیہ الرحمہ کے اندر کو م کا درد تھا وہ اپنی قوم کے اندر موجود خامیوں کی اصلاح چاہتے تھے اسی لیے انکی چاہے نجی مجلس کی گفتگو ہوتی یا عوامی ہر جگہ وہ اصلاح امت کی بات کرتے اصلاح کے لیے وہ کس قدر فکر مند تھے مندرجہ ذیل واقعہ کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں
ایک مرتبہ باباء قوم وملت کے ادارے میں ایک جلسہ بنام اصلاح معاشرہ کانفرس تھا میں
بھی اس جلس
ے میں مدعو تھا باباء قوم وملت نےمجھے مروجہ جہیز کے مضر اثرات پر تقریر کرنے کا حکم دیا تھا میں اپنے وقت پر اسٹیج پر پہونچ چکا تھا مگر ناظم جلسہ کی کرم فرمائیوں کی وجہ سے مجھے بولنے کا موقع نہیں ملا دو گھنٹے بعد باباء قوم وملت ، گل گلزار اشرفیت اجمل العلماء حضرت علامہ الحاج الشاہ سید محمد اجمل صاحب قبلہ مد ظلہ العالی والنورانی کے ساتھ اسٹیج تشریف لائے آتے ہی مجھ سے پوچھا کیا آپ تقریروں ہوئی میں نے عرض کیا نہیں اس وقت ایک شاعر کچھ پڑھ رہا تھا باباء قوم وملت نے فورا اس کی کو رکوادیا اور مجھے تقریر کرنے حکم دیا میں نے حکم کی کی
باباء قوم علماء نواز اکابر کا حد درجہ احترام کرتے تھے اصاغر نوازی کا عنصر ان میں کوٹ کر بھرا ہوا تھا پروردگار عالم باباء قوم درجات کو بلند فر ما آمین