تحریر: خلیل احمد فیضانی
عہد رواں میں لفظ ”تقریظ” گوش گزار ہوتے ہی ذہن فورًا بے جا تعریف و توصیف بلکہ مبالغہ و غلو کی طرف متبادر ہوتا ہے…عہد رواں میں بعض تقاریظ پڑھ کر تو رونا آتا ہے کہ جن لوگوں نے صحیح ڈھنگ سے درسِ نظامی تک نہیں پڑھا آج انہیں بھی علامہ ,فہامہ لکھا جارہا ہے…بلاریب یہ علمی خیانتیں و ٹھگ بازیاں ہیں جن پر روک لگنا بہت ضروری ہے…-
یہ ضروری نہیں کہ ہر تقریظ نویس غلو ہی کرتا ہے ,بعض تقاریظ ایسی بھی نظرنواز ہوتی ہیں جنہیں پڑھ کر قلبی لطف میسر آتا ہے کہ موصوف نےمصنف کی خوشامدی نہیں کی ہے; حقائق پر مبنی باتیں ہی سپرد قرطاس کی ہیں..میرا یہ معمول ہے کہ کوئی بھی کتاب پڑھنے سے پہلے "پیش لفظ”, "تقریظ”,” انتساب”وغیرہ ضرور پڑھتا ہوں; بنابریں تقاریظ نظر نواز ہوتی رہتی ہیں اور اکثر کا وہی حال ہوتا ہے جو ابھی اوپر بیان کیا…-
حضورمصلح قوم و ملت حضرت مولانا حافظ سعید صاحب اشرفی بانی و مہتمم دارالعلوم فیضان اشرف باسنی نے بھی اپنی بے شمار تعمیری,تدریسی ,فلاحی و تبلیغی مصروفیات کے باوجود تقریبًا تیس/30 کتابوں کا مطالعہ فرماکر ان پر بیش بہا تقاریظ رقم فرمائی ہیں…جن سے یقینا مؤلفین کی کتابوں کا معیار بھی بلند ہوا…اور انہیں اپنی نگارشات میں مزید بہتری لانے کا کچھ سلیقہ بھی نصیب ہوا…-
اس مضمون میں,میں انہیں تقاریظ پر تبصرہ و تجزیہ کی سعی خام کروں گا…-
راقم کو حضور مصلح قوم و ملت کی تقاریظ میں مبالغہ نام کی کوئی چیز نظر نہیں آئی…تقریظ,جو کہ مدح و قدح دونوں کا مجموعہ ہوتی ہے آج صرف بے جا القابات کا پلندہ بن چکی ہے- ایسے میں آپ کی تقاریظ کا مبالغے سے خالی ہونا اپنے آپ میں بہت بڑی بات ہے…آپ کا طرز تقریظ بھی مصلحانہ ہوتا ہے…جا بجا اصلاحانہ نقوش کی مہریں ثبت ہوتی ہیں…مؤلف کی فروگزاشتوں کی نشاندہی…مستقبل میں مزید بہتری و سلجھاؤ کے سجھاؤ (مشورے)…گوشہ گمنامی کے مکیں اہل علم حضرات کو کچھ کرگزرنے کی مہمیز…وغیرہا بہت سارے کار آمد مشورے اپنی تقریظ میں رقم فرماتے ہیں۔موقع کی مناسبت سے حوصلہ افزا کلمات سے بھی نوازتے ہیں…جو موضوع تشنہ کام ہے اس پر خامہ فرسائی کی رغبت دلاتے ہیں…ماضی میں مؤلف کی طرف سے جو بھی قلمی کام ہوا ہے اسے بھی سراہتے ہیں…مؤلف کے روشن مستقبل کی دعا کرتے ہیں۔
تقریبًا ہر تقریظ میں عوام اہلسنت سے یہ گزارش ضرور کرتے ہیں کہ کسی طرح وقت نکال کر اس کتاب کا مطالعہ ضرور کریں…یہ کڑھن آپ کی داعیانہ سوچ و مصلحانہ مزاج کو آشکارا کرتی ہے…”عظمت محرم”نامی کتاب کی تقریظ میں مؤلف کی محتاط طریقے سے حوصلہ افزائی فرمانے کے بعد لکھتے ہیں:ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری عوام ایسی مفید اور سلیس کتابوں کو بغور پڑھنے کی زحمت گوارا کیا کریں تاکہ عوام میں پھیلی ہوئی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو سکے -نیز امام عالی مقام میر کربلا حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے رفقاۓ کرام کی بے مثال قربانیوں سے سبق حاصل کریں- لکھنے پڑھنے اور کہنے سننے کا یہی مقصد ہے۔(عظمت محرم…ص:8)
یہ ایک جھلک تھی…اگر ہر تقریظ کے صرف چنیدہ چنیدہ اقتباسات کو بھی لیا جاۓ تو بھی طول طویل مضمون تیار ہوسکتا ہے۔
بس اسی نہج و طرز پر آپ کی بقیہ تقاریظ بھی ہیں…جن میں مصلحانہ ابواب کی جھلکیاں دکھائی پڑتی ہیں…اللہ تعالی ہمیں بھی حق کہنے حق سننے اور حق بولنے کی توفیق عطا فرماۓ۔ آمین