ازقلم: خلیل احمد فیضانی
شمع عشق و ایمان کو روشن تر کرنے کے لیےہمیں علماءکرام سے جڑنا اور صحیح معنوں میں ان کی قدر کوپہچاننا نہایت ضروری ہے…جہاں یہ ایک دینی فریضہ ہے وہیں سعادت مندی و فیروز بختی کی علامت بھی…ہم سب حسب استطاعت ان نفوس نادرہ کی قدر کرتے ہیں مگر دعوت اسلامی(جو کہ ایک عالمی تحریک ہے) نے تو اس دور پرفتن میں بھی علماے دین کی وہ قدر کی اور سکھائی ہے کہ دیکھ سن کر قلب وروح فرحاں و شاداں ہوۓ بغیر نہیں رہ پاتے ہیں…بانی تحریک حضرت مولانا الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتھم العالیہ نے گویا زندگی کا مشن ہی یہی بنا رکھا ہے کہ علم و علما کی دل کھول کر خدمت کرنی ہے…گاہے بگاہے وہ اس موضوع پرکلام بھی کرتے ہیں…اور اپنے مریدین و معتقدین کو ترغیب بھی دلاتے ہیں….کہ علماء کرام کی عزت و ادب کو بہرحال ملحوظ رکھنا ہے… نتیجتاً، عالمی سطح پر ایک بہت بڑی تبدیلی آرہی ہے…-
دعوت اسلامی کی روح سے عدم شناسائی کی بدولت کچھ ہمارے بھائی دعوت اسلامی پر یہ اعتراض کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ دعوت اسلامی والے علما کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں یا جیسی ان کی قدر کرنی چاہیے ویسی قدر نہیں کرتے ہیں۔
میری ان سے اولا تو یہ گزارش ہے کہ آپ کچھ وقت نکال کر امیر دعوت اسلامی کے "فضیلت علم و علما” پر مشتمل بیانات یوٹیوب پر سرچ کرکے سماعت فرمالیں…یقین مانیے شکوک و شبہات کا سارا غبار اترجاۓ گا…اور آپ کے دل میں بھی علماءکرام کی عقیدت کی لو مزید تیز تر ہوگی….
دوسری بات یہ کہ آج راقم الحروف کو محب گرامی مولانا رمضان عطاری صاحب نے ایک کلپ ارسال فرمائی…وہ کلپ رکن مجلس شوریٰ, نگرانِ ہند,دعوت اسلامی قبلہ سید عارف باپو صاحب دامت برکاتھم العالیہ کی تھی…یہ کوئی عوامی اجتماع نہیں تھا بلکہ صرف مبلغین دعوت اسلامی کی تربیتی نشست تھی..اس میں بڑے بڑے ذمہ داران شامل تھے…آپ نے جو بیان فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ علماء کرام اگر مدنی قافلہ میں تشریف لائیں تو ان سے کام وغیرہ کروانا کیسا ہے؟خود ہی جواباً فرماتے ہیں کہ کام تو دور کی بات رہی ادھر جماعت کھڑی ہورہی ہو تو علماء کرام سے ہم تم یہ تک نہیں کہہ سکتے کہ حضور جماعت کھڑی ہوچکی ہے آپ مسجد جلدی چلیں…دوسری اہم بات یہ ارشاد فرمائی کہ ہمیں یہ کھوج بین بھی نہیں کرنی ہے کہ کون مکمل درسِ نظامی کیا ہوا عالم ہے,کون باصلاحیت عالم ہے اور کون نہیں ہے…بس جو عالمانہ وضع قطع رکھتا ہو اور اسلامی تمدن کے آثار اس کے سراپا سے جھلکتے ہوں تو ہمیں بہر حال اس کی خدمت کرنی ہے…کسی طرح کی ٹوہ میں نہیں رہنا ہے…اس کی برکتیں ہمیں نصیب ہوں گی, اگر ہم ان باتوں پر کھرے اترتے ہیں…-
یقینا یہ مرقومہ بالا کلمات بڑی معنویت کے حامل ہیں…ان کلمات سے جہاں علماے دین تٔیں تحریک کا مزاج ہویدا ہوتا ہے وہیں ہمیں یہ دعوت فکر بھی ملتی ہے کہ ہم اس عظیم تحریک کے تعلق سے مخلص رہیں…میں نے باپو صاحب کے یہ کلمات جب سماعت کیے تو دعوت اسلامی و اہلیان دعوت اسلامی کے تٔیں میری محبت مزید بڑھ گئی اور بلاریب دل نہایت شادکام ہوا…سوچ رہا ہوں کہ جو شخصیت آل انڈیا کی نگران ہوکر علماء کرام کے لیے اس قدر عزت و تعظیم کا جذبہ رکھتی ہو تو ان کے ماتحتوں کی علماء کرام تٔیں عقیدت کیشی کا عالم کیا ہوگا؟ آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں..!یہ ہماری اپنی تحریک ہے…اس لیے آنکھیں موند کر اور کان بندھ کرکے کسی شک کی زد میں نہ آئیں،بلکہ حقیقت کی جستجو کریں…ان شاء اللہ تعالی آپ کو تصویر بالکل صاف ملے گی…اس تحریک نے علماے دین کی قدروں کو نسلِ نو کی روح میں اتارنے کی ریاض پیہم کی ہے…کاوشیں کی ہیں…ذہن سازی کی ہے…تب جاکر یہ ماحول بنا ہے کہ آج ہر مبلغ علماے دین کا قدردان نظر آتا ہے…دست بوسی کو اپنی سعادت سمجھتا ہے…دعا کرتا ہوں کہ مولا تعالی ہمیں حقائق کی جستجو کرنے کی توفیق عطا فرماۓ اور محض سنی سنائی باتوں کو نظرانداز کرنے کی توفیق عطا فرماۓ, آمین…