شارح بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:
” غالبا حضرات مدرسین(اساتذہ) کی بد قسمتی اس دور کے ساتھ خاص نہیں. یہ بھی اسلاف کا ورثہ ہے کہ تلامذہ اپنے اساتذہ کو فراغت کے بعد بھول جاتے ہیں اور کوئی ربط نہیں رکھتے. ان کا جو بھی نیازمندانہ تعلق ہوتا ہے وہ اپنے نامزد پیر کے ساتھ رہ جاتا ہے –
کتنا بڑا ستم ہے کہ اساتذہ اپنا خون جگر پلاتے ہیں. طلبہ کی خوابیدہ استعداد بیدار کرکے ان کو اوج ثریا تک پہنچاتے ہیں. ان کے ناز اٹھاتے ہیں. ان کے آپس کے مناقشات خوش اسلوبی سے طے کرتے ہیں. طلبہ کے لیے دردر بھیک مانگتے ہیں. اکثر مدرسین اور اراکین سے لڑائی مول لیتے ہیں اور فراغت کے بعد انھیں برسرروزگار کردیتے ہیں. مگر انھیں فراموش کردیاجاتا ہے. یہی سبب ہے کہ پھر وہ ایسے گمنام ہوجاتے ہیں کہ ڈھونڈنے سے ان کا پتہ نہیں ملتا.لیکن جو سعید طلبہ اپنے اساتذہ سے نیاز واخلاص کے ساتھ روابط رکھتے ہیں وہ پھلتے پھولتے ہیں اور اپنے اساتذہ کی طرح ملجاء انام ہوتے ہیں. اس کی دلیل حضرت صدرالشریعہ کے تلامذہ کے حالات ہیں.
( مقالات شارح بخاری جلد سوم. ص: ۸۲.۸۳ )