علما و مشائخ

علامہ سلیمان اشرف بہاری کی علمی جامعیت

ازقلم: پٹیل عبد الرحمن مصباحی، گجرات (انڈیا)

عرب قوم کی لسانی وسعت اور کثرتِ الفاظ کے ضمن میں ان کے تخیل کی رفعت کا نقشہ کھینچنے کے بعد، اس عظیم قوم کے تمدن کے حوالے سے علامہ سلیمان اشرف بہاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
"یہاں تو صرف عربی دماغ کے تمدن و تہذیب کی ایک جھلک دکھانا ہے، تاکہ آج وہ قومیں جن کے تہذیب و تمدن کی ایک دھوم مچی ہوئی ہے، اہل انصاف اُن سے مقابلہ کر کے یہ فیصلہ کریں کہ دماغی تمدن و تہذیب جو عرب کی قوم میں تھا، آج تک دنیا کی کسی قوم کو وہ رتبہ حاصل نہ ہو سکا. مآکل و مشارب ،ملابس و اماکن میں جتنی رنگ آمیزی چاہیے، کر لیجیے، لیکن دماغ کی پروردگی و آراستگی تو عربوں پر ختم ہو گئی.” (المبین)

علامہ سلیمان اشرف بہاری کا یہ ایک فقرہ مندرجہ ذیل اہم علمی نکات کی نشاندہی کرتا ہے۔

اول یہ کہ ہَننگٹن اور حسن عسکری جیسے تہذیبی تصادم کے نام لیوا بہت بعد کی پیداوار ہیں، تہذیبوں کے تقابل اور ٹکراؤ پر تحقیق کا جو سہرا ان کے سر باندھا جاتا ہے ممکن ہے یہ فن کی تکمیل اور اجزا کے احاطے کی وجہ سے ہو، ورنہ علامہ سلیمان اشرف کی علم افزا طبیعت نے اس باب میں بہت پہلے خامہ فرسائی کی ہے. کتنی پہلے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگانا چاہیے کہ سلیمان اشرف صاحب نے جب اپنی مذکورہ تحقیق کو مکمل کر لیا اس وقت ہننگٹن کی عمر صرف دو سال تھی. اس لحاظ سے تہذیبوں کے تصادم کے تحت، کم از کم لسانیاتی ٹکراؤ کے باب میں علامہ سلیمان اشرف صاحب کا ذکر کیا جانا چاہیے. نیز اس سے درس نظامی کی مردم خیزی کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں معمولی چٹائی پر بٹھا کر بھی دور اندیشی، جہاں بانی اور جہاں بینی کے گر سکھائے جاتے ہیں۔

دوم یہ کہ مسلمان عربوں کی تہذیب کو صرف شاعری، خطابت، مہمان نوازی، صحرا نوردی، شتربانی اور خانہ بدوشی جیسے جسمانی و معاشرتی احوال تک محدود کر دینا، یہ ایک ایسا فریب ہے جو پچھلے دو سو سال سے تاریخ نویسی کے نام پر علمی حلقوں کو دیا جا رہا ہے. حقیقت کچھ اور ہے جس کی طرف علامہ موصوف نے بڑے جامع الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے. وہ یہ کہ دماغ پروری اور عقل کی آراستگی عرب قوم کی پرجوش طبیعت کا لازمی جز ہے. جس طرح اس قوم نے ہزار سال تک دنیا کو آداب معاشرت سکھائے ایسے ہی لسانی کمالات کے جوہر لٹانے اور ذہنی علوم کو پروان چڑھانے میں بھی کوئی کمی نہیں کی. ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اسلام کی آغوش میں پروان چڑھنے والی ذی استعداد عرب قوم کے محاسن کو تعصب و تنگ نظری کی عینک اتار کر؛ آزادانہ علمی تحقیق کے ساتھ منظر عام پر لایا جائے۔

سوم یہ کہ علامہ موصوف نے مذکورہ بالا اقتباس میں بڑے سادہ طریقے سے یہ اعلان بھی کر دیا کہ تہذیب کی اصطلاحی تعریف بیان کرنے اور اس کے تشکیلی ڈھانچے کو واضح کرنے میں، مآکل و مشارب اور ظاہری زیبائش و آرائش پر اکتفا کرنا محقق کی شان کے خلاف ہے. محض ظاہری چکا چوندھ کو تہذیب گردان کر مغرب نے اپنا قد اونچا دکھانے کی کوشش کی ہے. کسی قوم کی تہذیب کا نقشہ اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک اس کی فکری بلندی، لسانی رفعت، روز مرہ لغت میں الفاظ کی کثرت، اپنی مخصوص زبان کی حفاظت کے لیے مختلف علوم کی وضع، کثرت الفاظ کی وجہ سے ما فی الضمیر کی ادائیگی میں سہولت اور اس کے نتیجے میں سامنے آنے والا معقولات کا خزانہ؛ ان تمام چیزوں کا خاطر خواہ جائزہ لے کر تحقیقی معیار پر پرکھا نہ جائے. اس نشاندہی کے ذریعے علامہ موصوف نے تہذیب و تمدن کے حوالے سے تحقیق کرنے والوں کو ایک نئی اور مستقل بنیاد فراہم کی ہے جس پر ثقافتی تحقیقات کے نئے مینار تعمیر کیے جا سکتے ہیں. اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کے تقابل یہ ایک الگ میدان ہے جہاں مغرب کو اس کے بونے پن کا احساس دلانے اور دنیا کو مغربیت کے سحر سے نکالنے کے امکانات کافی حد تک بڑھ جاتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے