اصلاح معاشرہ

نوجوان نسل میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی: اسباب و علاج

نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ، آئندہ کا معمار، اور ملت کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ اگر ان کے اندر ایمان کی پختگی، اخلاق کی بلندی اور علم و عمل کا جوہر ہو تو وہ قوم آسمانِ رفعت پر پہنچ جاتی ہے، لیکن اگر وہ بے راہ روی، بے مقصدی اور اخلاقی زوال کا شکار ہو جائیں تو نہ صرف ان کی اپنی زندگی برباد ہوتی ہے، بلکہ پوری ملت زوال پذیر ہو جاتی ہے۔

آج جب ہم اپنے اطراف و اکناف پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہم نوجوانوں کی اکثریت کو دین سے دور، اخلاق سے خالی، فیشن زدہ، مادہ پرست، اور خودغرض پاتے ہیں۔ ان کے پاس نہ مقصدِ حیات ہے، نہ بصیرتِ دین، نہ سیرتِ مصطفیٰ ﷺ سے لگاؤ۔ ان کے ہاتھوں میں موبائل ہے، دماغ میں فلمی خمار، اور دل میں دنیا کی محبت۔

یہ صورتِ حال فکر انگیز بھی ہے اور لمحۂ فکریہ بھی۔ سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ اور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

✦ نوجوانوں کی گمراہی کے کچھ اہم اسباب:

  1. دینی تعلیم اور تربیت کی کمی:

آج کے نوجوان کو قرآن و سنت، سیرت نبویﷺ، اور صحابہ و اولیاء (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) کے اسوے سے کوئی واقفیت نہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ❞مَن يُرِدِ اللّٰهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ ❞
"جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے، اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔”(صحیح بخاری، کتاب العلم، باب فضل من فقه في الدين، حدیث: 71، جلد 1، ص: 27، مطبوعہ: مکتبہ رحمانیہ، لاہور)
(صحیح مسلم، کتاب الزکاة، حدیث: 1037، دارالسلام، ریاض)
دینی شعور کے بغیر انسان صرف خواہشات کا غلام بن جاتا ہے۔

  1. والدین کی تربیتی غفلت:

اکثر والدین بچوں کو دنیاوی تعلیم دلواتے ہیں، موبائل، لیپ ٹاپ، فیشن اور آرام مہیا کرتے ہیں، لیکن نماز، حیا، ادب، اطاعتِ والدین، اور خدمتِ خلق جیسے اوصاف کی تربیت نہیں دیتے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں: ❝ رَبُّواأَوْلَادَكُمْ لِزَمَانِهِمْ، فَإِنَّهُمْ خُلِقُوا لِزَمَانٍ غَيْرِ زَمَانِكُمْ ❞
"اپنی اولاد کی تربیت ان کے زمانے کے مطابق کرو، کیونکہ وہ تمہارے زمانے کے لیے پیدا نہیں ہوئے۔”(البيان والتبيين لِلجاحظ، جلد 1، ص: 140)
(الدر المنثور، علامہ سیوطی، ذیل سورۂ تحریم، آیت: 6)

  1. سوشل میڈیا اور فحش مواد کی یلغار:

سوشل میڈیا جہاں ایک طرف دعوتِ دین کا ذریعہ بن سکتا ہے، تو وہیں دوسری طرف بے حیائی، گمراہی، اور ذہنی آلودگی کا بھی بڑا راستہ ہے۔ نوجوان دن رات فون میں گم ہوکر علم، وقت، صحت اور روحانیت سب کچھ گنوا رہا ہے۔

  1. بُری صحبت کا اثر:

صحبت انسان کی شخصیت کا آئینہ ہوتی ہے۔ اگر دوست نافرمان، فلمی، گالیاں دینے والے، آوارہ مزاج ہوں، تو انسان خود بھی ایسا ہی بن جاتا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
❝ المرء على دين خليله، فلينظر أحدكم من يخالل ❞
"آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا ہر شخص کو دیکھے کہ وہ کس سے دوستی کرتا ہے۔”
(سنن ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء في مثل الجليس الصالح، حدیث: 2378، جلد 4، ص: 588، دار السلام، ریاض)

🔹 واقعۂ تربیت:

حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ حضرت ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے قریب رہا کرتی تھیں اور انہیں بچپن میں ان کے پاس چھوڑ دیا کرتی تھیں۔ حضرت ام سلمہ نے حضرت حسن بصری کو نرمی، سنجیدگی اور عبادت کا ذوق سکھایا۔ یہی نیک صحبت اور بابرکت ماحول تھا جس نے انہیں امت کا زاہد، واعظ، اور امام بنا دیا۔
(حلیۃ الاولیاء، امام ابو نعیم اصفہانی، جلد 2، ص: 131)
(تہذیب الاسماء واللغات، امام نووی، جلد 1، ص: 208)
(طبقات الاولیاء، عبدالرحمن السلمی، ص: 56)

  1. تعلیمی اداروں کی بے روح فضا:

آج کے اسکول، کالج، کوچنگ سینٹرز میں تعلیم تو ہے، مگر تربیت نہیں۔ تعلیم صرف نوکری کے لیے دی جا رہی ہے، شخصیت سازی، کردار، اور روحانی ترقی کا کوئی نصاب نہیں۔

  1. میڈیا، فلم اور فیشن کا فتنہ:

بالی ووڈ، ویب سیریز، فیشن انڈسٹری اور ماڈرن کلچر نے نوجوانوں کی قدریں بدل دی ہیں۔ آج انہیں نماز اور قرآن بور لگتا ہے، اور گانے و رقص راحت بخش۔ یہ سب ان کے شعور پر گہرے نقوش چھوڑ رہا ہے-

✦ علاج: راہِ نجات کیا ہے؟

  1. دینی بیداری اور عقیدے کی اصلاح:

ہر نوجوان کو قرآن کی تلاوت، نماز کی پابندی، سیرتِ نبوی ﷺ، سیرتِ صحابہ، اور بزرگانِ دین کی تعلیمات سے جوڑا جائے۔ اسکولوں اور کوچنگ سنٹرز میں بھی اخلاقی تربیتی سیشن ہوں۔

  1. گھر کے ماحول کی اصلاح:

ماں باپ صرف دنیوی آسائش نہ دیں، بلکہ اپنے عمل سے دینی نمونہ پیش کریں۔ گھر میں نماز باجماعت، ذکرِ الٰہی، اور اسلامی اقدار کو زندہ کریں۔

  1. علماء و مشائخ کا زمینی کردار:

علماء صرف منبر ومحراب کے خطیب نہ ہوں، بلکہ نوجوانوں کے درمیان آ کر ان کے ذہنوں سے بات کریں، ان کے سوالوں کو سنیں، اور ان میں دین کی خوشبو پیدا کریں۔

  1. نیک صحبت و روحانی تعلق:

اولیائے کرام کی خانقاہوں، مدارس، اور روحانی مراکز سے نوجوانوں کو جوڑا جائے۔ ایک سچا مرشد، ایک مخلص بزرگ، ایک صالح دوست، انسان کی کایا پلٹ سکتا ہے۔

  1. دعوتی مواد اور میڈیا کے استعمال کا رخ موڑنا:

ایسے کتابچے، پوسٹر، ویڈیوز، اور کورسز تیار ہوں جو نوجوانوں کی زبان اور مزاج کے مطابق ہوں، اور ان کے دل میں ایمان کی چنگاری روشن کریں۔

  1. نوجوانوں کی تنظیم سازی:

مقامی سطح پر اسلامی مطالعہ حلقے، اصلاحی کیمپ، قرآن کلاس، سیرت پروگرام، خالص نعتیہ مشاعرہ جیسی سرگرمیوں میں نوجوانوں کو شامل کیا جائے، تاکہ ان میں قیادت، مقصدیت اور دین داری پیدا ہو۔

حاصلِ کلام یہ ہے کہ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر ہم نے آج کی نسل کو نہ سنبھالا تو کل ملت کو سنبھالنا مشکل ہوگا۔ لیکن اگر ہم آج ہی سے اصلاحِ احوال کا آغاز کر دیں تو یہی نوجوان کل کے مجاہدِ اسلام، علمبردارِ سنت، اور خدمتگارِ ملت بن سکتے ہیں۔

جوانو! سچ کہو، تم میں ہے کچھ باقی ابھی وہ تاب؟

جو پیدا کر سکے اک انقلابِ بے مثال؟

آئیے، ہم سب اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں، نیک نیت ہو کر کام کریں، اور اللہ ربّ العزّت سے دعا کریں کہ وہ ہمارے نوجوانوں کو ہدایت، علم، حیا اور دین داری سے مالا مال فرمائے۔

نوجوانوں سے ہے ملت کی امیدیں
اسی میں ہے قوموں کی تقدیر پنہاں
(ڈاکٹر محمد اقبال)

ازقلم: محمد شمیم احمد نوری مصباحی
خادم: دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ، سہلاؤ شریف، باڑمیر (راجستھان)

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے