صفرالمظفر مذہبی مضامین

ماہِ صفر ہرگز منحوس نہیں، بلکہ صفرالخیر ہے

اسلامی نیاسال محرم الحرام سے شروع ہوتاہے اور یہ چارحرمت والے مہینوں میں ایک ہے جسے قرآن مجید میں منھا اربعۃ حرم۔کہا۔ قمری پہلا مہینہ محرم الحرام کے بعدقمری دوسرا مہینہ ماہِ صفر المظفر آتاہے۔چنانچہ کئی لوگ ماہِ صفرکے آنے کو منحوس خیال کرتے ہیں۔ مثلاً نحوسست کے وہمی تصورات کے شکارلوگ ماہ صفرکو مصیبتیں اور آفتیں اترنے کا مہینہ سمجھتے ہیں۔ماہِ صفر المظفرکی ابتدائی 13 تاریخیں بہت زیادہ منحوس(نحوست والی) مانی جاتی ہیں اس کو تیرہ تیزی کہتے ہیں ،اس میں شادی بیا۔ رخصتی۔گھر بدلنے۔ سفر کرنے کو منحوس جانتے ہیں، علامہ مفتی محمد امجدعلی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ یہ سب جہالت کی باتیں ہیں ان سب کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔اور صدرُالشریعہ لکھتے ہیں کہ اس صفر المظفر کے آخری بدھ(چہارشنبہ) ہندوستان میں بہت منایا جاتاہے لوگ اپنے کاروبار بند رکھتے ہیں۔بہتر عمدہ کھانے تیار کرتے ہیں اور اپنے اپنے گھروں سے سیر و تفریح کے لیے نکل جاتے ہیں، پوریاں پکتی ہیں اور نہاتے دھوتے خوشیاں مناتے ہیں اور تصور کرتے ہیں کہ ہمارے نبی حضرت محمدﷺ صحت یاب ہوئے حالانکہ فتاوی رضویہ اور بہار شریعت اوردیگرکتب اسلامیہ میں ہے کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔یہ سب باتیں بے اصل ہیں بلکہ ان دنوں میں حضور اکرم ﷺ مرض شدت کے ساتھ تھا وہ باتیں خلاف واقع ہیں۔(بہارشریعت)

کوئی دن منحوس نہیں ہوتا
علامہ حامدآفندی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے سوال کیاگیا۔کیابعض دن منحوس ہوتے ہیں جو سفراوردیگرکاموں کی صلاحیت نہیں رکھتے؟ توجواب میں فرمایا کہ جوشخص یہ سوال کرے کہ کیابعض دن منحوس ہوتے ہیں اس کے جواب سے اِعراض کیاجائے اوراسکے فعل کوجہالت کہاجائے اور اس کی مذمّت بیان کی جائے۔ایساسمجھنا یہودکاطریقہ ہے۔مسلمانوں کا شیوہ نہیں ہے۔جو اللہ تعالیٰ پر توکّل کرتے ہیں(تنقیح الفتاوی الحامدیہ 2/367)
محترم قارئین۔کوئی وقت برکت والا اور عظمت والا توہوسکتاہے جیسے ماہِ رمضان ،ربیع الاول، جمعۃ المبارک، وغیرہ مگرکوئی مہینہ یادن منحوس نہیں ہوسکتا۔مراۃ المناجیح میں ہے۔ اسلام میں کوئی دن یا کوئی ساعت منحوس نہیں ہاں بعض دن بابرکت ہیں (مراۃ المناجیح 5/484)تفسیر روح البیان میں ہے۔ صفر وغیرہ کسی مہینے یا مخصوص وقت کو منحوس سمجھنا درست نہیں۔ تمام اوقات اللہ عزوجل شانہ کے بنائے ہوئے ہیں۔ اور ان میں انسانوں کے اعمال واقع ہوتے ہیں جس وقت میں بندہ مومن اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی میں مشغول ہو وہ وقت مبارک ہے اور جس وقت میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے وہ وقت اس کے لیے منحوس ہے درحقیقت اصل نحوست تو گناہوں میں ہے۔(تفسیر روح البیان 3/428 ) ۔ ماہ صفر المظفر یہ صفر الخیر ہے۔ یعنی کامیابی کا مہینہ ہے خیر والا مہینہ ہے اب اگر
کوئی شخص اس مہینے میں احکام شرع کا پابند رہا نیکیاں کرتا اور گناہوں سے بچتا رہا تو یہ مہینہ یقیناً اس کے لیے مبارک ہے اور اگر کسی بد کردار نے یہ مہینہ بھی گناہوں میں گزارا ،جائز ناجائز، حرام و حلال کا خیال نہ رکھا تو اس کی بربادی کے لیے گناہوں کی نحوست ہی کافی ہے اب ماہ صفر ہو یا کسی بھی مہینے کا سیکنڈ منٹ یا گھنٹہ اگر اسے کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ اس کی شامت اعمال کا نتیجہ ہے۔
توہُّم پرستی اور بدشگونی
اسلام میں توہم پرستی یا بدشگونی کی قطعاً گنجائش نہیں ہے مگر اس کے باوجود مسلمانوں کی کثیر تعداد اِس مرض کا شکار نظر آتی ہے ۔بد شگونی کسے کہتے ہیں۔بد شگونی ،نحوست ،بدفالی کو کہتے ہیں (فیروز اللغات)
شگون کیا ہے۔شگون کا معنی ہے فا ل لینا یعنی کسی چیز ،شخص۔عمل۔ آواز۔یا وقت کو اپنے حق میں اچھا یا بُرا سمجھنا۔حالاتِ حاضرہ میں یہ تمام توہُّم پرستی۔ بدشگونی موجود ہے۔مثلاََشام کے وقت جھاڑو لگانے سے گریز کرنا کہ اس سے دولت کم ہوگی۔کالی بلّی کاراستہ کاٹنے سے کام بگڑجانے کا تصور وغیرہا یہ سب ہندو معاشرے کے عام توہمات ہیں۔اورعرب معاشرے کے لوگ بیٹی کی پیدائش کو منحوس سمجھتے تھے۔صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت اسماء بنت ابی بکررضی اللہ عنہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:نبی کریم ﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات کے دن سورج کو گرہن لگ گیا،تو بعض لوگوں نے کہنا شروع کیاکہ سورج گرہن اس وجہ سے ہوا کہ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا ہے۔ہمار ے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا:سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں، یہ کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے گرہن میں نہیں آتے۔پس جب تم گرہن دیکھو تو نماز اور دعا میں مشغول ہو جاؤ۔(صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ صحیح مسلم کتاب الکسوف)خلاصہ یہ نکلا کہ نبی کریم ﷺ نے توحید کا پرچم بلند رکھتے ہوئے ہر قسم کے توہُّم پرستی کو مسترد فرمایا، اور یہ تعلیم دی کہ سورج چاند اللہ تعالیٰ کی قدرت کی نشانیاں ہیں، ان میں گرہن ہونا کسی انسان کی موت و حیات سے متعلق نہیں۔
فرعونی بدشگونی لیتے
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں فرعونی آپ سے اور آپ کے ماننے والوں سے بد شگونی لیتے تھے اس کا ذکر قرآن مجید پارہ 9 سورہ اعراف آیت 131 میں موجود ہے۔اللہ پاک نے فرمایا۔تو جب انہیں بھلائی ملتی کہتے یہ ہمارے لیے ہے اور جب برائی پہنچتی تو موسیٰ علیہ السلام اور اس کے ساتھ والوں سے بد شگونی لیتے سن لو ان کے نصیبہ(مقدر) کی شامت تو اللہ کے یہاں ہے لیکن ان میں اکثر کو خبر نہیں۔
( ترجمہ کنز الایمان) فرعونیوں کو جو بھی اچھائی پہنچتی یا بھلائی پہنچتی تو وہ کہتے یہ ہماری وجہ سے ہے، ہم ہیں اسی وجہ سے یہ بھلائی پہنچی ہے اور انہیں کو جب برائی پہنچتی، مصیبت آتی، پریشانی آتی، تو کہتے یہ تو موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھ والوں کی طرف سے برائی پہنچی ہے۔ یہ موجود ہیں اسی وجہ سے یہاں پریشانیاں نازل ہو رہی ہیں اگر یہ نہ ہوتے تو مصیبت نہ آتی تو انہوں نے موسیٰ علیہ السلام اور آپ کے ساتھ والوں سے بدشگونی لی۔تفسیر خزائن العرفان میں ہے کہ فرعونی کہتے کہ یہ بلائیں ان کی وجہ سے پہنچی اگر یہ نہ ہوتے تو یہ مصیبتیں نہ آتی۔معجم الکبیر میں آقائے کائنات ہمارے آخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺکی حدیث مبارکہ موجود ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔جس نے بدشگونی لی اور جس کے لیے بد شگونی لی گئی وہ ہم میں سے نہیں۔
منافقین بدشگونی لیتے
زمانہ رسالت ﷺمیں بھی منافقینِ مکہ آپﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے
بد شگونی لیتے اس کا ذکر بھی قرآن مجید پارہ 5 سورۃ النساء آیت نمبر 78 میں موجود ہے۔اللہ پاک نے فرمایا۔اور اُنہیں کوئی بھلائی پہنچے تو کہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور اُنہیں کوئی برائی پہنچے تو کہیں یہ حضور ﷺکی طرف سے آئی ،تم فرما دو سب اللہ کی طرف سے ہے تو ان لوگوں کو کیا ہوا کوئی بات سمجھتے معلوم ہی نہیں ہوتے۔( ترجمہ کنز الایمان) تفسیر خزائن العرفان میں مولانا سید نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ۔ یہ حال منافقین کا ہے کہ جب انہیں کوئی سختی پیش آتی ہے تو اس کو حضور سید عالمﷺکی طرف نسبت کرتے اور کہتے جب سے یہ آئے ہیں ایسے ہی سختیاں پیش آیا کرتی ہیں ۔آگے فرماتے ہیں گرانی ہو یا ارزانی ،قحط ہو یا فراخ حالی ،رنج ہو یا راحت، آرام ہو یا تکلیف، فتح یا شکست، حقیقت میں سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
مصیبت کیوں پہنچتی ہے
آج معاشرے میں توہم پرستی اور بد شگونی سے مصیبت کا پہنچنا تصور کرتے ہیں ایسا ہرگز نہیں مصیبت۔بدشگونی۔ توہُّم پرستی۔ سے نہیں پہنچتی بلکہ مصیبت اپنے کئے ہوئے سے پہنچتی ہے قرآن مجیدپارہ 25 سورۃ الشوری آیت 30 میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا۔اور تمہیں جو مصیبت پہنچتی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور بہت کچھ تو معاف فرما دیتا ہے۔(ترجمہ کنز الایمان)۔تفسیرخزائن العرفان میں ہے یہ خطاب مومنین مکلفین سے ہے جن سے گناہ سرزد ہوتے
ہیں۔ مراد یہ ہے کہ دنیا میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں مومنین کو پہنچتی ہیں اکثر ان کا سبب ان کے گناہ ہوتے
ہیں ان تکلیفوں کو اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کا کفارہ کر دیتا ہے اور کبھی مومن کی تکلیف اس کے رفع درجات کے لیے ہوتی ہے۔ جو مصیبتیں تمہارے لیے مقدر ہو چکی ہیں ان سے کہیں بھاگ نہیں سکتے بچ نہیں سکتے۔پارہ 27 سورہ حدید آیت نمبر 22 میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا۔نہیں پہنچتی کوئی مصیبت زمین میں اور نہ تمہاری جانوں میں مگر وہ ایک کتاب میں ہے قبل اس کے کہ ہم اسے پیدا کریں بے شک یہ اللہ کو آسان ہے۔تفسیرخزائن العرفان میں ہے کہ نہیں پہنچتی کوئی مصیبت زمین میں اس کامطلب یہ ہے کہ قحط کی۔ امساک باراں (بارش رکنے)کی۔ عدم پیداوار کی۔ پھلوں کی کمی کی۔کھیتوں کہ تباہ ہونے کی۔ اور نہ تمہاری جانوں میں، جانوں سے مراد امراض کی اور اولاد کے غموں کی۔مگر وہ یہ ایک کتاب میں ہے یعنی لوح محفوظ میں ہے۔ ان آیات کریمہ میں بھی اللہ رب العزت نے بد شگونی کا کہیں تذکرہ نہیں کیا۔جو کچھ ہوتا ہے وہ لوح محفوظ میں محفوظ ہے اسی لیے ہمیں ذات باری تعالی سے امید قوی رکھناہے اس لئے کہ ہم نے ایمان مفصل میں اقرارکیا ہے کہ ،اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لا چکے ہیں
ماہِ صفر منحوس نہیں۔صفر الخیر ہے
ماہ صفر المظفر منحوس نہیں ہے یہ صفر الخیرہے ۔ صحیح البخاری باب لاھامۃ ولاصفر میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔لاعدوٰی۔ولا طیرہ۔ولا ھامۃ۔ولاصفر۔لاعدوٰی یعنی بیماری کا اڑ کر لگنا کوئی چیز نہیں ہے۔ولاطیرہ۔شگون کوئی چیز نہیں ہے
ولاھامۃ۔یہ ایک پرندہ ہے جسے الو کہتے ہیں رات کو بولتا ہے اسے منحوس کہا جاتا ہے اور ولاصفر۔ یہ پیٹ کی بیماری کا جاہلانہ تصور کوئی چیز نہیں ہے۔اور صحیح البخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔چھوت کی بیماری کوئی چیز نہیں نیز پیٹ کی بیماری اور الّو کا جاہلانہ تصور کوئی چیز نہیں پس ایک اعرابی عرض گزار ہوا کہ یا رسول اللہ اُن اونٹوں کا کیا حال ہے جو ریت میں ہرنوں کی طرح لیٹتے ہیں پھر ان میں ایک خارشی اونٹ آملتاہے اور سب کو خارشی کردیتاہے ۔اس پر ہمارے آقاحضرت محمد مصطفی ﷺ نے فرمایاکہ پھر پہلے کو بیماری کس نے لگائی ۔مطلب یہ نکلا کہ اللہ پاک کے چاہنے سے سب کچھ ہوتاہے۔
اچھا شگون لینا جائز ہے
اچھاشگون لیناجائز ہے۔ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺے ارشاد فرمایا کہ بیماری کا اڑ کر لگنا کوئی چیز نہیں اور شگون لینا کوئی چیز نہیں۔(صحیح بخاری کتاب الطب۔)اور اچھا شگون لینا یہ جائز ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں نبی کریمﷺنے فرمایا شگون لینا کوئی چیز نہیں اور فال ان میں اچھی چیز ہے دریافت کیا گیا کہ یا رسول اللہ فال کیا چیز ہے ۔فرمایا کہ وہ اچھا لفظ جو تم میں سے کوئی سنے۔(صحیح بخاری کتاب الطب)اچھے فال کی نشاندہی فرماتے ہوئے فقیہ اعظم علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ مصنف بہارشریعت حصہ پانزدہم میں عقیقہ کے بیان میں تحریر فرماتے ہیں ۔عقیقہ کا جانور ذبح کرنے کے بعد اوس کی ہڈی نہ توڑی جائے بلکہ ہڈیوں پر سے گوشت اتارلیا جائے یہ بچہ کی سلامتی کی نیک فال ہے اور ہڈی توڑ کر بنایا جائے اس میں بھی کوئی حرج نہیں ۔اس میں میٹھا پکایا جائے تو بچہ کے اخلاق اچھے ہونے کی فال ہے ۔نیک فال سے خوش ہونا بھی اسی قبیل سے ہے نیک فال اس اچھی بات کو کہتے ہیں جسے حاجت مند کسی کے منہ سے سنیں ،اکثر لوگ قلبی طور پر اسباب ہی کی طرف جھک جاتے ہیں اور خالقِ اسباب کو بھول جاتے ہیں اور جو ایسا کرتا ہے اسے اکثر اسباب کے رحم و کرم پر ہی چھوڑ دیا جاتا ہے اور پھر وہ رسوا ہوتا ہے کیونکہ سب نعمتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اس کے فضل و احسان سے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ترجمہ کنزالایمان۔اے سننے والے تجھے جو بھلائی پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے۔پارہ پانچ سورۃ النساء اورپارہ 14 سورۃ النحل میں
اللہ پاک نے ارشاد فرمایا۔ اور تمہارے پاس جو نعمت ہے سب اللہ تعالی کی طرف سے ہے ۔
کیا آپ بھی صفر کو منحوس جانتے ہیں
کیا اللہ پاک نے کوئی مہینہ منحوس پیداکیاہے؟کیا ماہ صفر کے منحوس ہونے کا ذکر قرآن مجید میں احادیث طیبہ میں اقوال صحابہ میں یا اولیاء اللہ کی تعلیمات میں موجودہے؟ نہیں ہرگزنہیں کوئی اللہ پاک کے بنائے مہینہ کو منحوس ثابت نہیں کرسکتاپھر اگر کہے ماہ صفر المظفر منحوس ہے تو مہینہ کے پیدا کرنے والے پر سوال کھڑا کررہے ہیں ۔معاذاللہ ، اگرواقعی ایسا ہے تو ایمان صلب ہونے کا قطرہ بڑھ جاتاہے۔ایمان کی حفاظت اسی میں ہے کہ ہم اللہ پاک کے پیداکئے ہوئے کسی مہینے کو منحوس نہ سمجھیں۔

تحریر: محمد توحید رضا علیمی بنگلور
امام۔ مسجد رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
خطیب ۔ مسجدرحیمیہ میسور روڈ جدید قبرستان بنگلور
مہتمم ۔دارالعلوم حضرت نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ بنگلور
نوری فائونڈیشن بنگلور
9886402786

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے