یومِ آزادی محض ایک قومی تہوار نہیں، بلکہ یہ ہماری تاریخ کا وہ درخشاں باب ہے جو قربانی، ایثار، عزم اور اتحاد کی سنہری سطور سے لکھا گیا۔ 15 اگست 1947ء کا سورج جب طلوع ہوا تو اس نے غلامی کی طویل رات کے بعد آزادی کی روشنی اپنے دامن میں سمیٹ کر اس دھرتی پر بکھیر دی، جہاں ہر گلی کوچے میں خوشی کی لہریں دوڑ گئیں، ہر دل میں آزادی کی مٹھاس گھل گئی، اور ہر زبان پر شکر کے ترانے جاری ہو گئے۔
لیکن یہ آزادی یوں ہی نہیں ملی۔ اس کے پیچھے صدیوں کی محنت، لاکھوں جانوں کی قربانیاں، قید و بند کی صعوبتیں، جلاوطنیوں کے کرب، پھانسی کے پھندے، اور ان گنت بے مثال ایثار کی داستانیں چھپی ہیں۔ آج بھی جب ہم ان لمحات کو یاد کرتے ہیں تو دل رنجیدہ اور آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔
آزادی کا تاریخی پس منظر:
ہندوستان کی تاریخ گواہ ہے کہ تقریباً آٹھ سو سال تک یہاں اسلامی حکومت اپنی شان و شوکت کے ساتھ جگمگاتی رہی۔ اس طویل عرصے میں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک مسلمانوں کے جھنڈے لہراتے رہے، ملک امن، علم، تہذیب اور بھائی چارے کا گہوارہ بنا رہا۔ صنعت و حرفت اور علمی و فنی ترقی نے ہندوستان کو دنیا بھر میں ممتاز کیا۔ مگر 18ویں صدی کے وسط میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے انگریز تاجر یہاں آئے تو دھیرے دھیرے اپنے شاطرانہ ہتھکنڈوں سے اقتدار پر قابض ہو گئے۔
1857ء کی جنگِ آزادی وہ پہلا بڑا معرکہ تھا جس نے غلامی کی بنیادیں ہلا دیں۔ مغل سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی معزولی کے بعد انتشار و خلفشار کے دروازے کھل گئے۔ انگریزوں نے ظالمانہ پالیسیوں سے عوام پر ظلم ڈھائے، "بانٹو اور راج کرو” کے فارمولے سے نفرت کے بیج بوئے۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کو سور کی کھال میں لپیٹ کر پھانسی دینا، مساجد سے لے کر گلی کوچوں تک لاشوں کے انبار لگانا، اور پورے ملک کو قبرستان بنا دینا عام ہو گیا۔
فتویٰ جہاد اور علمائے اہل سنت کا کردار:
ان سنگین حالات میں ملک کو بچانے کے لیے ایک ایسی تحریک کی ضرورت محسوس ہوئی جو انگریزوں کے خلاف علمِ جہاد بلند کرے۔ اس موقع پر بطلِ حریت حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی علیہ الرحمہ نے وہ تاریخی فتویٰ تحریر کیا جس میں واضح کیا گیا کہ "انگریزوں سے اپنے مذہب، ملک اور عزت کی حفاظت کے لیے جہاد واجب ہو گیا ہے”۔ اس فتویٰ پر اس وقت کے اکابر علماء و مشائخ کے دستخط ہوئے۔ اس فتوے نے پورے ملک میں آزادی کی لہر دوڑا دی۔
ہزاروں علمائے اہل سنت نے مسندِ درس و ارشاد کو چھوڑ کر شمشیرِ حق اٹھائی اور لکھنؤ سے دہلی تک میدانِ کارزار میں اتر گئے۔ بہت سے علما کو کالا پانی (جزائرِ انڈمان) کی جلاوطنی دی گئی، کئی کو پھانسی کے پھندے پر جھولنا پڑا، اور بے شمار کو بے نام قبروں میں دفن کر دیا گیا۔ ان میں علامہ فضل حق خیرآبادی، مفتی عنایت احمد کاکوروی، مفتی صدرالدین آزردہ، مولانا لیاقت علی الٰہ آبادی، مولانا احمد اللہ مدراسی جیسے عظیم نام نمایاں ہیں۔
مسلمانوں کا نمایاں کردار:
تحریکِ آزادی کا کوئی باب مسلمانوں کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ وطن سے محبت کو ایمان کا جزو سمجھتے ہوئے مسلمانوں نے "انقلاب زندہ باد” اور "سرفروشی کی تمنا” جیسے ولولہ انگیز نعرے بلند کیے۔ اشفاق اللہ خان، مولانا حسرت موہانی، مولانا ابوالکلام آزاد، اور استاد بسم اللہ خان جیسے کردار قربانی کے اس کارواں کے روشن چراغ ہیں۔
بین المذاہب اتحاد:
آزادی کی سب سے بڑی طاقت بین المذاہب اتحاد تھا۔ گاندھی جی کی عدم تشدد کی تحریک سے لے کر لالہ لاجپت رائے کی قربانی، بھگت سنگھ کی جرأت سے لے کر خان عبدالغفار خان کی جدوجہد تک، سب کا خواب ایک ہی تھا: آزاد ہندوستان۔
آزادی کے بعد کے تقاضے:
آزادی کا حصول پہلا قدم تھا، مگر اس کی حفاظت اور استحکام ایک مسلسل ذمہ داری ہے۔ آج بھی فرقہ واریت، بداعتمادی اور باہمی منافرت جیسے چیلنج موجود ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر قومی یکجہتی اور بھائی چارے کو مضبوط کریں۔
یومِ آزادی کی تقریبات:
ہر سال 15 اگست کو جب لال قلعے کی فصیل پر ترنگا لہراتا ہے اور قومی ترانہ گونجتا ہے تو یہ ہمارے آباؤ اجداد کی قربانیوں کا جیتا جاگتا ثبوت ہوتا ہے۔ اسکولوں، کالجوں، دفاتر اور گلی محلوں میں ترنگا لہرایا جاتا ہے، قومی گیت گائے جاتے ہیں، اور ملک کی سالمیت و ترقی کے عزم کا اعادہ کیا جاتا ہے۔
یومِ آزادی کا پیغام:
یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہندوستان سب کا ہے، کسی ایک مذہب یا طبقے کی جاگیر نہیں۔ جیسا کہ راحت اندوری مرحوم نے کہا تھا:
سبھی کا خون ہے شامل یہاں کی مٹی میں
کسی کے باپ کا ہندوستان تھوڑی ہے
حاصل کلام یہ ہے کہ آزادی ایک عظیم نعمت ہے، اور نعمت کا شکر یہی ہے کہ اس کی حفاظت کی جائے۔ ہمیں آزادی کے مقاصد کو سمجھنا، قومی اتحاد کو فروغ دینا اور اس دھرتی کی خدمت کو اپنا نصب العین بنانا چاہیے۔
آؤ، اس یومِ آزادی پر ہم سب یہ عہد کریں:
ہم اپنے وطن کی عزت، سالمیت اور ترقی کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔ یہی ہمارے ملک کو آزاد کرانے والے جانبازوں کے خوابوں کی تکمیل ہے، یہی ہمارا عزمِ نو ہے۔
آخرمیں بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اے ربِ کائنات! ہمارے پیارے وطن ہندوستان کو ہمیشہ امن و امان، خوشحالی اور ترقی کی نعمتوں سے مالا مال فرما۔ یہاں کی فضا میں محبت اور بھائی چارے کی خوشبو رچ بس جائے اور اس کی مٹی کو وفا اور ایثار کی چادر اوڑھا دے اور یہاں سے نفرت، عداوت اور فرقہ واریت کا نام و نشان مٹ جائے۔
اے پروردگار! وطنِ عزیز کو ہر اس شر پسند، فتنہ گر اور بد نیت قوت سے محفوظ فرما جو اس کی سالمیت اور وحدت کو نقصان پہنچانے کی سازش کرے۔
اے اللہ! ہمارے قلوب میں اخوت و اتحاد، ایثار، قربانی اور خدمتِ وطن کا جذبہ پیدا فرما، اور ہمیں اپنے اسلاف کی قربانیوں کے مقاصد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما۔
اے مالک ارضوسما! اس پیاری دھرتی کو اپنی امان میں رکھ اور اسے ہر بلا، ہر آفت اور ہر دشمن کے مکر و فریب سے محفوظ رکھ، اور اس کی عزت و سربلندی کو تا قیامت قائم و دائم فرما۔
آمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین(ﷺ)
ازقلم: مولانا محمد شمیم احمد نوری مصباحی
ناظم تعلیمات :دارالعلوم انوارِ مصطفیٰ سہلاؤشریف، باڑمیر (راجستھان)