تاریخ کے دریچوں سے یوم آزادی و یوم جمہوریہ

تحریک آزادی کے وقت قوم ہنود کے خیالات

تحریک آزادی کے عہد میں مسلمانوں سے متعلق قوم ہنود کے تین خیالات تھے۔

(1)کانگریس کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو ملک میں رہنے دیا جائے,لیکن ان کو محکوم بنا کر رکھا جائے۔حکومت میں ان کو حصہ نہ دیا جائے,لیکن برطانوی حکومت نےبھارت کی تمام قوموں کو مساوی حقوق دینے کا فیصلہ کیا تھا۔سائمن کمیشن:1927نے ملک میں جمہوری حکومت کے قیام کی سفارش کی تھی,لہذا بھارت کو جمہوری ملک کا درجہ دیا گیا۔

جمہوری ملک ہونے کے باوجود آزادی کے بعد کانگریس نے مسلمانوں کو محکوم بنا کر رکھا۔چوں کہ بھارت جمہوری ملک تھا,اور ہر قوم کا ووٹ بھی لینا تھا,لہذا مسلمانوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے واسطے مسلم لیڈروں کو بعض عہدے ضرور دیئے گئے۔مسلم لیڈران نے بھی ذاتی مفادات کی خاطر خموشی اختیار کی۔قومی حقوق کی طرف نہ متوجہ ہوئے,نہ ہی کبھی اس کے لئے آواز بلند کی۔

مسلم ہندو اتحاد کے سب سے بڑے داعی ابو الکلام آزاد نے بھی آزادی کے بعد اس کو محسوس کیا اور اپنی لغزشوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔

اگر تمام مسلمان متحد ہو کر آزادی کی جنگ لڑتے تو حکومت میں مسلمانوں کو مضبوط حصہ داری ملتی۔ابو الکلام آزاد اور دوبندی جمعیۃ العلما نے مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔مسلم لیگ مسلمانوں کے حقوق کی آواز بلند کرتی رہی اور دیوبندی جمعیۃ العلما کانگریس کے نظریات کو صحیح ثابت کرنے کے لئے قرآن وحدیث پیش کرتی رہی۔

(2)بعض ہندو لیڈروں مثلا لالہ لاجپت رائے وغیرہ کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو کچھ علاقے دے کر انڈیا سے الگ کر دیا جائے,لیکن کانگریس نے اس کو ابتدائی مرحلہ میں قبول نہ کیا۔1946میں جب کانگریس اور مسلم لیگ کی مشترکہ حکومت قائم ہوئی اور کانگریس کی من مانی چل نہ سکی,تب کانگریس نے تقسیم کا نظریہ قبول کر لیا۔

(3)بعض ہندو لیڈروں اور تنظیموں کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو ملک سے نکال دیا جائے۔چوں کہ مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد کو ملک سے باہر کرنا آسان نہیں تھا,لہذا اس جانب لوگوں نے توجہ نہیں دی,نیز برطانوی حکومت ایسے پلان کو ہرگز قبول نہیں کر سکتی تھی۔

عہد حاضر میں اسی خیال کے لوگ بھارت پر قابض ہیں,لیکن اب دنیا کے حالات بدل چکے ہیں۔تمام ممالک اقوام متحدہ سے منسلک ہیں۔ہر ملک کو اپنے شہریوں کو ان کے حقوق دینا ہے۔بلا سبب محض مذہب کی بنیاد پر کسی قوم کو ملک بدر نہیں کیا جا سکتا ہے۔

ان حالات کے سبب ہندو تنظیموں نے پلان بدل دیا ہے۔مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کی بجائے اب اسلام کو ملک بدر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔یہ لوگ چاہتے ہیں کہ بھارتی مسلمان اگر ہندو نہ بھی بنیں تو ہندو نما بن جائیں۔برائے نام مسلمان رہیں۔اس پلاننگ کی تکمیل نجدی فرقہ اور اس کی ذیلی جماعتیں کر سکتی ہیں,لہذا علمائے اہل سنت وجماعت ان جماعتوں کی حرکتوں پر گہری نظر رکھیں۔ان کی جانب سے پیش کیے جانے والے نظریات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

ممکن ہے کہ اہل سنت وجماعت میں سے بھی بعض لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی جائے۔اگر بعض سنیوں کو اس جال میں پھنسایا جا چکا ہو تو ان پر بھی نظر رکھیں۔یہ ضروری نہیں کہ جس کو جال میں پھنسا دیا جائے,ان کو یہ احساس وادراک بھی ہو جائے کہ ہم جال میں پھنس چکے ہیں۔

یہ بھی ظاہر ہے کہ مادہ پرستی کے عہد میں بہت سے دولت وحکومت کے حریص بھی جان بجھ کر سازشوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

الحاصل شعوری یا لا شعوری طور پر بعض لوگ سازشوں کے شکار ہو سکتے ہیں۔ان شاء اللہ تعالی ہم قوم کو جگاتے رہیں گے۔اللہ ورسول(عز وجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم)ہماری مدد فرمائیں:(آمین)

ازقلم: طارق انور مصباحی

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے