آج ۱۵/اگست یوم آزادی ہے۔
اج ہی کی تاریخ ۱۵ اگست ۱۹۴۷ کو ہمارا ملک عزیر تن کے گورے من کے کالے لے تسلط سے آزاد ہواتھا۔ غلامی کی زنجیروں کو، آزادی کے متوالوں نے توڑ ڈالا،جس کے نتیجے میں آج ہم آزاد ہیں، پورے ملک میں آزادی کا جشن منایا جا رہا ہے، ہر طرف خوشی کے گیت گائے جا رہے ہیں، قومی اور ملی ترانے پڑھے جا رہے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ مسرت و شادمانی کا یہ دن،کیا انگریزوں نے سونے کی تھالی میں سجا کر ہمیں سوغات میں بھینٹ نہیں کیاتھانہ جانے کتنی بار ہم ہندوستانیوں کے خون بہائے گئے،لاکھوں ہندوستانیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیاہزاروں علماء اور مجاہدین کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیالاکھوں لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا
ہزاروں علماء اور مجاہدین کو، جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیاہندومسلم متحد ہو کر خصوصا علماء اسلام نے اپنے خون و پسینہ ایک کیاتب کہیں جا کر آزادی کا یہ دن نصیب ہوا ۔
لیکن بد قسمتی سے آج ہمارا ملک، بھید بھاؤ کی سیاست کا شکار ہو گیا ، نفرت کی سیاست پروان چڑھ رہی ہے ،خصوصا مسلمانوں کو ہر محاذ پر پیچھے ڈھکیلا جا رہا ہے، اور ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔جبکہ وطن عزیز کی آزادی میں،ہم مسلمانوں کی قربانیاں، برادران وطن سے، ہزاروں گنا زیادہ ہیں۔ اس کے باوجود آج بھیں کو ملک کا بےوفا، اور غدار تک کہا جا رہا ہے۔
جبکہ ہندوستان کی تحریک آزادی کی سچی حقیقت یہ ہے کہ علماے کرام نے اس جنگ کو جہاد کا نام دیا تھا، 1857ء میں علامہ فضل حق خیر آبادی، علامہ کفایت علی کافی،علامہ علی رضا بریلوی،مولانا لیاقت اللہ الہٰ آبادی، مولانا احمد اللہ مدراسی وغیرہم علما نے فتویٰ جہاد دیا اورپورے ملک میں اس کی خوب تشہیرکی، جس سے پورے ملک میں آزادی کی لہر دوڑ گئی۔ علماے کرام کے ساتھ ساتھ عام مسلمانوں نے بھی اس جنگ آزادی میں دل و جان سے حصہ لیا اور انتہائی درجہ کی تکلیفیں برداشت کیں اور ہزاروں علماے کرام کو انگریزوں نے جوش انتقام میں پھانسی پر لٹکا دیا اور علما نے بڑے عزم و حوصلہ سے مسکراتے ہوئے پھانسی کے پھندوں کو قبول کر لیا تب جاکر 15؍ اگست 1947ء کو ملک ہندوستان آزاد ہوا۔ اور آج ہم ہندوستان کی کھلی فضا میں جوسانس لے رہے ہیں انہیں علماء کرام کی مرہون منت ہے۔
یہ بہت بڑا المیہ اور سانحہ ہے کہ آج ہماری نئی نسل بہت ہی کم جانتی ہے کہ جنگِ آزادی میں علما کا کوئی کردار و کارنامہ رہا ہے۔تاریخ کو محو کرکے رکھ دی گیا ہے بقول علامہ اقبال
"جس طرح ایک شخص کی زندگی میں حافظہ کی زبردست اہمیت ہے، حافظہ (یادداشت) اگر کم ہوجائے یا بالکل ختم ہوجائے تو اس کی زندگی اس کے لیے بے معنی ہوجائے گی۔ اس طرح ایک قوم یا ملت کی زندگی میں تاریخ کی زبردست اہمیت ہے۔ کیونکہ اگر اس کی تاریخ گم ہوجائے گی یا گمنامی میں چلی جائے گی، دفن ہوجائے گی تو اس قوم کی زندگی بھی بے معنی اور بے کار ہوکر رہ جائے گی”اور ہندی شرپسدوں نے بھی ہماری قربانی اورتاریخ کوچھپانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
جب کہ سچائی یہ ہے کہ انگریزوں نے ہندوستان کی حکومت مسلمانوں سے چھینا تھا اس لیے دوسری قوموں کے مقابلے میں مسلمانوں نے آزادی کے لیے بڑی بڑی قربانیاں پیش کیں۔ بڑے بڑے علمائے اسلام نے جنگ آزادی کا بگل بجایا اور خود پیش پیش رہے۔ جنگِ آزادی کے دوران اور شکست کے بعد گرفتار یوں کے وقت طرح طرح کی مصیبتیں اٹھائیں اور صابر و شاکر رہے اور ملک و ملت کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی پیچھے نہ ہٹے۔
اب ان عظیم المرتبت علمائے اسلام میں چند کا مختصر تذکرہ ملاحظہ فرمائیں۔
علامہ فضلِ حق خیرآبادی علیہ الرحمہ:
آپ نے1857 کی تحریک میں نمایاں حصہ لیا۔ مسلمانوں کو عزت و آبرومندانہ زندگی بسر کرنے کے لیے ایک باقاعدہ جہاد کا فتویٰ تیا ر کیا۔ جگہ جگہ دورے کئے اور دہلی پہنچ گئے۔ آپ کے مشورےصرف لال قلعہ کی پوشیدہ مجلسوں تک محدود نہ تھے۔ وہ جنرل بخت خاں سے ملے، مشورے ہوئے۔ آخر میں بعد نماز جمعہ دلی کی جامع مسجد میں علما و عوام کے کثیر اژدہام کے سامنے زبردست تقریر کی اور فتویٰ پیش کیا۔ گرفتار ہوئے، مقدمہ چلا، انگریز ججوں کے سامنے پیش کئے گئے۔ جس مخبرنے عدالت میں آپ پر اعتراض پیش کیا تھا آپ کی علمی ہیبت سے لرز اٹھا اور کہنے لگاکہ یہ وہ شخص نہیں ہے جس نے فتویٰ جہاد پر دستخط کیا تھا۔ آپ نے بلا لو مۃ الائم انگریز کچہری کو للکارا اور کہامخبر جو بیان پہلے دے چکا ہے وہی صحیح ہے اور اب میری صورت دیکھ کر مرعوب ہوگیاہے اورجھوٹ بول رہا ہے۔ سنو، جہاد کا فتویٰ میں نے دیا ہے اور میں اب بھی اپنے فتویٰ پر قائم ہوں اور اس سلسلے میں میں نے اپنے فیصلہ سے سرمو انحراف نہیں کیا۔ دریائے شور(کالا پانی) کی سزا ہوئی۔ جزیرہ انڈمان بھیجے گئے جہاں انگریزوں نے آپ پر آپ کے ساتھیوں پر سخت ظلم و ستم ڈھایا۔ انڈمان میں ہے 12؍صفر 1227ھ کو آپ کا انتقال پُرملال ہوا۔
علامہ کفایت علی کافی مرادآبادی علیہ الرحمہ:
1857ء سے قبل آگرہ اکبر آباد میں آپ کاقیام تھا۔ انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ صادر فرمایا۔ بریلی کے اطراف میں جہاد کے لیے دورے کئے۔ حویلی مرادآباد میں فرنگی سامراج کے خلاف علمِ جہاد بلند فرمایا۔ جدھر آپ کا رخ ہوا برطانوی سامرج کو شکست کا سامنا ہوا۔ سلطان بہادر شاہ ظفر نے آپ کو دہلی بلایا اور جہاد کے لیے مشورے کئے۔ آپ نے جنرل بخت خان، شیخ افضل صدیقی، شیخ بشارت علی خاں، مولانا سبحان علی، نواب مجدالدین، مولانا شاہ احمد اللہ مدراسی کی معیت میں مختلف محاذوں پر انگریزوں کوشکستیں دیں۔ رام پور، مرادآباد کے اکثر معرکے سر کئے۔ بالآخر انگریزوں نے 6؍رمضان 1274ھ/30؍اپریل 1858ء کو اپنے پٹھو کلال فخرالدین اور دیگر دغا بازوں کی سازش کے ذریعہ گرفتار کرکے مرادآباد جیل سے متصل بر سرعام تختہ دار پر لٹکادیا۔ پھانسی کے وقت آپ علیہ الرحمہ مندرجہ ذیل اشعار ترنم سے بڑے ہی والہانہ انداز میں پڑھ رہے تھے۔جسے رہتی دنیا تک لوگ گنگناتے رہیں گے
کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہ جائے گا
پر رسول اللہ کا دین حسن رہ جائے گا
ہم سفیرو باغ میں ہے کوئی دم کے چہچہے
بلبلیں اڑ جائیں گی سونا چمن رہ جائے گا
اطلس و کمخواب کی پوشاک پر نازاں نہ ہو
اس تنِ بے جان پر خالی کفن رہ جائے گا
سب فنا ہوجائیں گے کافی ولیکن حشر تک
نعت حضرت کا زبانوں پہ سخن رہ جائے گا
علامہ رضا علی خان علیہ الرحمہ:
امام اہلسنت مجدد دین و ملت اعلی حضرت امام احمد رضا خاں فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ کے دادا بزرگوار نے فرنگی تسلط کے خلاف مجاہدین آزادی کے ساتھ تحریک آزادی میں بھر پور حصہ لیا۔ بریلی میں آپ کا مکان اور مسجد انقلابیوں کا مرکز تھا۔ مولانا عنایت احمد کا کوروی، نواب خان بہادر کی قیادت میں جگہ جگہ ان کے ساتھ رہے۔ جنرل ہڈسن نے آپ کا سر قلم کرنے کا انعام پانچ سو روپئے رکھا تھا۔ مشہور مورخ ملی سن لکھتا ہے:
"بریلی کے اندر لوگوں میں برطانوی حکام کے خلاف جو یورش پھیلی اس کے تمام تر ذمہ دار بخت خاں اور اس کا ساتھی ملا شاہ علی رضا علی ولد حافظ کا ظم علی تھے جو بریلی کے عوام کو برطانوی حکام کے خلاف مقابلہ کرنے پر بے حد بر افروختہ کیا۔ اگر ملا رضا بریلوی اپنے عقیدت مندوں سمیت ہمارا مقابلہ نہ کرتا تو بریلی شہر پر ہمارا قبضہ بالکل آسان تھا۔”
مجاہد اعظم مولانا سید احمد اللہ شاہ مدراسی:
1857ء میں انگریزوں کے خلاف علمِ جہاد بلند کرکے تحریک کے قائد اعظم کی حیثیت سے بخت خان کے دست راست بن کر دہلی پہنچے۔ بخت خان کے مشورے سے علامہ فضل حق خیرآبادی نے بعد نماز جمعہ جامع مسجد دہلی میں جہاد کی اہمیت پر شعلہ بار تقریر کی اور اس کے لیے فتویٰ جہاد مرتب کیا۔ مفتی صدرالدین آزردہ، ڈاکٹر وزیر خاں، سید مبارک شاہ، احمداللہ شاہ مدراسی نے اس پر اپنے دستخط کئے اور مختلف مقامات پر لڑائی میں شرکت کی۔ آگرہ میں انگریزی استبداد سے ٹکرائے پھر کانپور میں برطانوی اقتدار کے پرخچے اڑائے، پھر لکھنؤ میں محاذ فتح کئے اور جنرل کولن کیمبل کو دوبارہ شکست دی۔ پھر فیض آباد میں فرنگی سامراج کا ستیا ناس کیا۔ الغرض برطانوی اقتدار کے پرخچے اڑانے والوں میں آپ کا نام سر فہرست ہے۔ تن من دھن سب کچھ ملک و ملت پر نثار کرکے بالآخر شاہجہاں پور کے میدان کارزار میں داد شجاعت دیتے ہوئے 13؍ذیقعدہ 1275ھ کو جام شہادت نوش فرما گئے۔
مفتی صدرالدین خان آزردہ:
انگریزوں کا اقتدار بڑھتا دیکھا تو تحریکِ آزادی کا علم اٹھا کر فتویٰ جہاد نشر کیا۔ مجاہدین و اکابرین تحریکِ آزادی کی قیادت کی۔ عظیم الشان کتب خانہ جو زندگی بھر کی تلاش کا حاصل تھا فتویٰ جہاد پر دستخط کرنے کے جرم میں جائیداد کے ساتھ ضبط ہوگیا۔ گرفتار ہوئے۔ جائیدادتو مل گئی لیکن ظالم انگریزوں نے کتب خانہ واپس نہ کیا۔ شعر گوئی میں کمال رکھتے تھے۔ بروز جمعرات 24؍ربیع الاول 1285ھ بستی نظام الدین اولیا دہلی میں داعی اجل کو لبیک کہا۔
مفتی عنایت احمدکاکوروی علیہ الرحمہ:
علی گڑھ میں ہی آپ انگریزی میں مفتی و منصف کے منصب پر مقرر کئے گئے۔ ایک سال کے بعد بریلی تبادلہ ہوا جہاں اکابر علما و رہنما اصحاب کی سرکردگی میں تحریک انقلاب کی سلسلہ جنبانی جاری تھی۔ مفتی عنایت احمد علیہ الرحمہ بھی شب و روز بریلی کے انقلابی گروہ کی مشاورتی مجالس میں شرکت کرنے لگے اور نواب خان بہادر خان کی قیادت میں جہاد حریت تنظیم کے لیے سرگرم عمل ہوئے۔ روہیل کھنڈ اوربریلی مجاہدین آزادی کا عظیم مرکز تھا اور اس علاقہ میں اینٹی برٹش تحریک کے قائد امام اہلسنت امام احمد رضا کے دادا مولانا رضا علی خاں صاحب تھے۔ مجاہدین کے لیے کھانا اور سواری کے جانور کے انتظام میں وہ پیش پیش تھے۔ مجاہدین کے لشکر میں شامل ہوکر محاربات میں علما حصہ لینے لگے۔ جگہ جگہ خان بہادر خان کے دست راست بنے۔ کمال جرأت و ہمت سے لڑتے رہے۔ جنرل بخت خان بریلی پہنچے اور دارالتخت دہلی کے مرکزی محاذ پر شرکت کے لیے رام پور یوسف علی خان نے جنگ آزادی میں مجاہدین کی اعانت سے انکار کیا تو جنرل بخت خاں نے فوج کشی کردی۔ اس جنگ میں بھی مفتی عنایت احمدعلیہ الرحمہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مولوی سرفراز علی صاحب کے مشورے سے مرادآباد ہوتے ہوئے دہلی گئے۔ وہاں ابھی تک ہنگامہِ کارزار گرم تھا۔ مفتی صاحب میدان شجاعت میں تیغ آزمائی بھی کرتے رہے اور مجلس مشاورت میں خاص طور سے شرکت فرمارہے۔ مفتی صاحب نے دوسرے رہنما ئے حریت کی معیت میں محاربہِ بریلی میں اول اول فتح حاصل کی لیکن وطن دشمن غداروں کی ناپاک حرکات کی وجہ سے بالآخر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ شہیدانِ حریت کے ارواح پر رحمت کے پھول نچھاور ہونے کی دعائے خیر کرتے ہوئے میدان سے رخصت ہوگئے۔ مفتی عنایت احمد صاحب انگریزی تسلط کے بعد گرفتار کر لیے گئے۔ کالا پانی کی سزا تجویز ہوئی۔ 1858ء میں کالا پانی بھیج دئے گئے۔ وہاں پہلے سے حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی، مولانا مفتی مظہر کریم دریاآبادی موجود تھے۔ زنداں کی تکلیف اور غریبی الوطنی کے باوجود حفظ قرآن پاک بھی کیااور سیرت نبوی میں ’’تواریخ حبیب الہ‘‘ فن صرف میں”علم الصیغہ” وغیرہ کتابوں کی مدد و مراجعت کی تالیف کی۔ 1277ھ/1860ء ایک انگریز افسر جس کی فرمائش پر دو دن زنداں تقویم بلدان ترجمہ کیا اور حافظ وزیر علی داروغہ جیل کی کوشش سے رہا کئے گئے۔ کاکوری میں تھوڑا عرصہ قیام کے بعد کانپور چلے آئے۔ اسی سال ’’مدرسہ فیض عام‘‘ قائم کیا۔ مولانا لطف اللہ علی گڑھی مشہور زمانہ عالم و بزرگ مدرسہ کے پہلے فارغ طالب علم تھے۔ 1279ھ میں بذریعہ پانی جہاز حج و زیارت کے ارادے سے روانہ ہوئے۔ 11؍شوال المکرم 1279ھ /17؍ اپریل 1863ء کو جہاز پہاڑ سے ٹکرا کر ڈوب گیا۔ مفتی صاحب حالتِ نماز احرام باندھے ہوئے غریقِ رحمت ہوئے۔ آپ کی کل تصانیف کی تعداد بیس ہے۔ (جنگ آزادی کے مشاہیر علمائے اہلِ سنت، مفتی مجاہد حسین حبیبی۔ آل انڈیا سیرت کولکاتا مغربی بنگال)
ان کے علاوہ متعدد عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نےتحریک جنگ آزادی میں اپنا سرکٹاکر کردار ادا کیا:
مثلاًانگریزوں کے خلاف اٹھانے والے پہلی آوازنواب سراج الدولہ ہیں،اسیطرح شیر میسور ابو الفتح ٹیپو سلطان شہید ،حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی،حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی،آخری مغل بادشاہ،ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ ظفر،شہزادہ فیروز شاہ،بیگم حضرت محل، نواب خان بہادر خان، عزیزان بائی،مولانا ظفر علی خان،ڈاکٹر مختار احمد انصاری،جنرل شاہنواز خان،حضرت مولانا عبدالباری فرنگی محلی، ڈاکٹر سید محمود،خان عبدالصمد خان،رفیع احمد قدوائی،بیرسٹر آصف علی،عبدالقیوم انصاری،حضرت مرزا مظہر جان جاناں نقشبندی مجددی دہلوی،حضرت قاضی ثناء اللہ مجددی پانی پتی، حضرت شاہ رفیع الدین محدث دہلوی،حضرت مفتی محمد عوض عثمانی بریلوی،حضرت مفتی شریف الدین رام پوری، نواب غلام محمد خان،مولانا فیض احمد بدایونی نایاب ستارے ہیں جنھوں نے محکومی کی شب دیجور کو تار تار کیا اور ملک کے چپے چپے کو انوار حریت کی ضوفشانی سے معمور کردیا۔
دہلی، کلکتہ، لاہور، بمبئی، پٹنہ، انبالہ، الہ آباد، لکھنوٴ، سہارنپور، شاملی اور ملک کے چپے چپے میں مسلمان اور دیگر مظلوم ہندوستانیوں کی لاشیں نظر آرہی تھیں علماء کرام کو زندہ خنزیر کی کھالوں میں سی دیا جاتا پھر نذر آتش کردیا جاتا تھا کبھی ان کے بدن پر خنزیر کی چربی مل دی جاتی پھر زندہ جلادیا جاتا تھا۔
لیکن حیف صد حیف کہ تاریخ ساز اور یادگار قومی دن کے مبارک و مسعود موقع پر جب مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو یاد کیا جاتا ہے، ان کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے، تو ان علماء کرام اور مجاہدین حریت کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے جنھوں نے ملک کی آزادی کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، مالٹا اور کالا پانی میں ہر طرح کی اذیتیں جھیلیں اور جان نثاری و سرفروشی کی ایسی مثال قائم کیں جن کی نظیر نہیں ملتی اور ملک کا چپہ چپہ ان کی قربانیوں کا چشم دید گواہ ہے۔
آزادی کے بعد ملک میں امن وامان کو برقرار رکھنے ایک قانون کی ضرورت پڑی تو قانون بنانے کیلئے ایک کمیٹی بنائی گئی ،جس طرح مسلمانوں نے ہندوستان کو آزاد کرانے کیلئے اپنی جانوں کی قربانی پیش کیں اسی طرح قانون بنانے میں ہمارے علمائے اور دانش مند حضرات نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا آئین بنانے کیلئے جو کمیٹی بنائی گئی تھی ان میں بے شمار مسلمان خصوصا علما شامل تھے جیسے مولانا ابوالکلام آزاد ،مولاناحسرت موہانی ،مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی وغیرہ سمیت تقریبا ۳۵؍ مسلمان شریک تھے جس کا صدر ڈاکٹر بھیم راو امبیڈکر کو بنایا گیا ہمارا آئین اور قانون بنانے میں ۲؍سال ۱۱مہینے اور ۱۸؍ دن لگے اور ۲۶؍ جنوری ۱۹۵۰ کو یہ قانون ہمارے ملک میں لاگو کیا گیا اسی لئے ہرسال ۲۶؍جنوری کو ہم ہندوستانی لوگ اس دن کو یوم جمہوریہ کے نام سے مناتے ہیں پوری دنیا میں ہمارا ملک سب سے بڑا جمہوری ملک ہے اور ہماراآئین بھی سب سے بڑا آئین ہے جمہوری ملک کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ ملک میں حکومت عوام کی ہوتی ہے اور حکومت کرنے والے عوام کی مرضی کے مطابق حکومت کرتے ہیں ہمارا آئین اس ملک مین رہنے والے ہرآدمی کو یہاں رہنے اور اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی دیتا ہے۔
اس تناظر میں جب ہم ملک کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو آزادی کے وقت کابھارت اور آج کے بھارت میں نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ہمارا ملک انگریزوں سے تو آزاد ہوا لیکن ان کی ذہنیت رکھنے والے ملک دشمن کے ہاتھوں میں آ کر گھر گیا، ہم آزادی کا تو جشن مناتے ہیں لیکن نہ ہم مکمل طور پر آزاد ہیں نہ موجودہ جمہوری طرزِ حکومت سے مطمئن۔
آج، ہم آزادنہیں ہیں،کیوں کہ “لڑاؤ اور راج کرو”کے فارمولے پر آج بھی عمل ہو رہا ہے۔ ملک میں رہنے،تعلیم حاصل کرنے، مذہب پر عمل کرنے،ووٹ ڈالنے اور اظہار رائے کی آزادی جیسے حقوق جو ہمیں آئین کے ذریعے حاصل ہیں، اسی کی بنا پر ہماراملک جمہوری ہے،اس کی بنیادی ساخت کو ہی کھوکھلا کیا جا رہا ہے،دیکھا جائے تو نہ پورے طور پراظہارِ رائے کی آزادی کا تصور ہے نہ ہی مذہبی آزادی کا،اور کہیں تواظہارِ رائے کی اتنی آزادی ہے کہ ایک خاص مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو کاٹ ڈالنے تک کی باتیں برسرِ عام کی جارہی ہیں۔ایسی بدعنوانیوں کے خلاف مسلسل احتجاجات بھی ہو رہے ہیں لیکن حکومت گونگی بہری بنی ہوئی ہے۔
آئین میں مذہبی آزادی کی دفعہ تو ہے لیکن کالج اور یونیورسٹی میں حجاب کی مخالفت عام ہوتی جا رہی ہے۔داڑھی ٹوپی دیکھ کر جیل کے سلاخوں میں ڈال دیا جارہاہے اور دس بیس سال کے بعد باعزت بری بھی کردیتے ہیں ہر چہار سورنگ ونسل کی بناء پر ہراساں کیا جا رہا ہے۔
کیا یہی ہے آزادی کا مطلب؟
بُلّی بائی ایپ، سلی ڈیل اور کلب ہاؤس ایپس کے ذریعے مسلم خواتین کی بولی لگائی جا رہی ہے، ان کی عصمت سے کھلواڑ کیا جارہا ہے، ان کو بدنام کیا جا رہا ہے،ملک میں نفرت پھیلانے والے ہمارے پیارے آقاﷺ کہ شان میں گستاخی کرتے جارہے ہیں لیکن ایسا کرنے والوں پر کوئی خاص کاروائی نہیں ہو رہی۔کہاں گیا آئین کا آرٹیکل نمبر ۲۱؍رازداری کا حق(رائٹ ٹو پرائیویسی)؟ جس کے تحت شہریوں کو شخصی آزادی اور رازداری کا حق حاصل ہوتاہے۔
ایسا لگ رہا ہے کہ ایسی سازش رچی جا رہی ہے جس میں نہ ظاہراً آئین کی خلاف ورزی ہو اور نہ عوام کے حقوق کی پامالی ہو اور کام بھی ہو جائے۔ذراغور توکریں شیطانی ذہنیت کیسے کیسے کام کر رہی ہے۔اب تو زعفرانیت زدہ لیڈران اور ان کے ہم نوالے آئین کی بھی پرواہ نہیں کرتے، ان کی منشا یہی ہے کہ دستور کو تبدیل کر دیا جائے، ملک کو ہندو راشٹر بنایا جائے، جس کا کھل کر پرچار کر رہے ہیں۔
ان کو پتہ ہونا چاہیے کہ ملک کی ازادی میں جتنے سر ہمارے کٹے ہیں ان کے نہیں کٹے ہیں آج بھی انڈیا گیٹ پر ہمارے اباواجداد کے اسماء جلی حرفوں میں لکھی نظر آرہی ہے جو دعوت نظارہ دے رہاہے ملک صرف تمہارا ہی نہیں بلکہ مسلمان برابر کے شریک ہیں
حد تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے تئیں نفرت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ برسرعام ہندو راشٹر بنانے کا اعلان کیا جا رہا ہے، بھگتو سے مسلمانوں کے بائیکاٹ کا حلف لیا جا رہا ہے، مسلمان بچیوں کو دین سے پھیرا جارہاہے،اس کی ویڈیو بناکر جاری کی جا رہی ہے، تاکہ نفرت کا کھیل کھلے عام کھیلا جائے اور مسلمانوں کے دلوں میں اتنی دہشت پیدا کر دی جائے کہ وہ خود یہ ملک چھوڑ کر بھاگ جائیں، اور ہم راج کریں۔
ملک کی امن و سکون بھری فضا میں زہر گھول دیا گیا ہے، خوب نفرتیں پھیلائی جا چکی ہیں،مزید جاری ہیں۔نفرت اور تعصب کی بنا پربس اور ٹرینوں کاسفرمشکل ہوتاجا رہا ہے۔
مسجد کی جگہ زبردستی لاٹھی کے بل بوتے مندر بنادی گئی اور لوگ تماشائی بنے رہے۔اسلام دشمن عناصر حیوانیت اور درندگی کے درپے ہیں۔ایک نہیں، نہ جانے کتنے مسائل ہیں جن سے اقلیتی طبقہ پریشان ہے۔نہ کوئی سنوائی ہے نہ ہی دکھ درد کا مداوا۔اب نہ جانے جمہوریت کا انجام کہاں تک پہنچے۔
یہی ہے آج کا بھارت، جس میں جمہوری اقدار بس نام کی چیز رہ گئی ہے، جس کی دہائیاں بھی ایوان تک نہیں پہنچ پاتیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم خود کو تعلیمی اور معاشی اعتبار سے مضبوط کریں اور اس سلسلے میں ضرورت مندوں کی مدد کریں۔قوم و ملت کی فلاح و بہبود کے کام کریں، جب مختلف شعبہاے حیات میں ہم مضبوط ہوں گے، اور اپنے مالک حقیقی سے بھی رشتہ مضبوط کریں گے تو بہتری آئے گی، بس ہمیں کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالی ملک عزیز کے گلشن کو سلامت رکھے اور دشمنوں کے شر سے حفاظت کر امن وامان کا پیغام نصیب عطا فرمائے آمین۔
اللہ تعالی ملک عزیز کے گلشن کو سلامت رکھے اور دشمنوں کے شر سے حفاظت کر امن وامان کا پیغام نصیب عطا فرمائے آمین۔
تحریر: غلام رسول اسماعیلی
استاذ مرکزی ادارہ شرعیہ پٹنہ
خطیب وامام قدیمی جامع مسجد محمدپور شاہ گنج پٹنہ