وہ دھرتی جس کی مٹی میں صدیوں کی کہانیاں چھپی ہوئی ہیں، جس کی ہوا میں تہذیب کی خوشبو رچی بسی ہے، وہ بھارت ہے۔ یہاں کے پہاڑ، ندی نالے، کھیت کھلیان اور جنگل، ہر منظر ایک داستان سناتے ہیں۔ گنگا اور یمنا کی موجیں صدیوں کی گواہ ہیں، اور ہر پتھر میں قدیم تہذیب کی صدا ہے۔ مغلوں کے فنون لطیفہ بہادرانہ جوش و جذبہ اور دیگر گوناگوں خوبیوں سے مالا مال یادگاریں آج بھی دلوں کو جلا دیتی ہیں۔
مگر ہر سنہری دور کے بعد اندھیروں کی بھی داستان ہوتی ہے۔ وہ دن بھی آیا جب یورپی طاقتوں نے اس سرزمین پر قدم رکھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد نے بھارت کی تقدیر بدل دی۔ برطانوی سامراج نے نہ صرف زمین پر قبضہ کیا بلکہ دلوں، دماغوں اور روحوں پر بھی اثر ڈالا۔ کسانوں کی زمینیں چھینی گئیں، بازار و کارخانے خالی ہو گئے، اور عوام کی زندگی مشکلات اور مایوسیوں سے بھر گئی۔ لیکن ہر دل میں ایک امید کی کرن، آزادی کی روشنی نے جنم لیا۔
1857 کی پہلی جنگ آزادی ایک چراغ کی مانند جل اُٹھی، جس نے ظلم و ستم کے اندھیروں کو چیر کر روشنی ڈالی۔ علامہ فضل حق خیرآبادی کی جرأت علامہ کفایت علی کافی کی محنتیں مفتی عنایت احمد کاکوروی کی شہادت اشفاق اللہ خان کی قربانی رانی لکشمی بائی کی بہادری، بہادر شاہ ظفر کی آخری جدوجہد، اور ٹیپو سلطان کے عزم نے یہ ثابت کیا کہ قوم کے دل میں آزادی کا جذبہ کبھی مر نہیں سکتا۔ اگرچہ یہ جدوجہد تاریخی شکست میں ڈوبی، لیکن اس نے عوام کے دلوں میں آزادی کی آگ روشن کر دی۔
19ویں صدی میں تعلیمی اور معاشرتی اصلاحات نے عوام میں شعور پیدا کیا۔ مدارس، کتابیں، رسائل اور علمی مجالس نے برطانوی حکمرانی کے خلاف ایک منظم تحریک کی بنیاد رکھی۔ عوامی شعور بڑھا، اتحاد کی اہمیت سمجھی گئی اور ہر دل میں آزادی کی روشنی پھیلنے لگی۔ ہر گاؤں، ہر بازار، ہر مکان میں ایک نیا جذبہ جنم لیا۔
20ویں صدی میں آزادی کی تحریک نے ایک نیا رنگ اختیار کیا۔ مہاتما گاندھی نے عدم تشدد اور ستیہ گرہ کے اصولوں سے عوام کے دلوں کو باندھ دیا۔ ہر گاؤں، ہر بازار، ہر دل میں آزادی کی تمنا نے جنم لیا۔ لوگ نہ صرف احتجاج کرنے لگے بلکہ اپنی قربانیوں کے ذریعے قوم کی تقدیر بدلنے لگے۔
گاندھی کے اصولوں نے ثابت کیا کہ طاقت صرف جسمانی نہیں بلکہ روحانی بھی ہوتی ہے۔ ان کی اور علماء کرام کی قیادت میں عوام نے برطانوی تسلط کے خلاف سول نافرمانی، ہڑتالیں اور عوامی تحریکیں شروع کیں۔ یہ تحریکیں ہر طبقے کے انسانوں کو ایک چٹان کی طرح جوڑنے کا سبب بنیں۔ خواتین، نوجوان اور بزرگ سب نے ایک آواز میں آزادی کے نعرے بلند کیے۔
پنڈت جواہر لال نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد نے سیاسی شعور اور قوم پرستی کے جذبات کو فروغ دیا۔ ان کی قیادت نے بھارت کو ایک جدید ریاست کے لیے تیار کیا۔ سبھاش چندر بوس نے عسکری اور سیاسی میدان میں جدوجہد کی نئی راہیں دکھائیں۔ ملک کے ہر کونے میں ایسے رہنما موجود تھے، جنہوں نے اپنے خون اور پسینے سے بھارت کی آزادی کی بنیاد رکھی۔
آزادی کی راہ میں لاکھوں لوگ جن میں بکثرت علمانے اپنی جانیں قربان کیے۔ قید خانے، جیلیں اور تشدد کے ذریعے عوام کو خاموش کرنے کی کوشش کی گئی۔ مگر ہر ظلم کے بعد عوام کا جذبہ اور بڑھتا گیا۔ ہر قربانی، ہر احتجاج، اور ہر نعرہ آزادی کی راہ میں ایک قدم آگے تھا۔ یہی قربانیاں بھارت کے لیے ایک روشن مستقبل کا خواب بنیں۔
آخر کار، 15 اگست 1947 کو بھارت نے برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کی۔
یہ دن نہ صرف سیاسی آزادی کا دن تھا بلکہ ہر بھارتی کے دل میں امید، عزت اور خودمختاری کی روشنی لے کر آیا۔ بھارت نے ایک جمہوری، سیکولر اور متنوع ثقافت رکھنے والے ملک کے طور پر دنیا کے نقشے پر اپنی شناخت بنائی۔
آزادی کا مطلب صرف برطانوی تسلط سے نجات نہیں تھا۔ یہ معاشرتی انصاف، اقتصادی ترقی، تعلیمی بیداری اور عوام کی عزت و وقار کی بحالی بھی تھی۔ بھارت کی آزادی نے دنیا کو یہ دکھایا کہ ظلم و ستم کے خلاف جدوجہد انسانیت کے لیے روشن مثال بن سکتی ہے۔
گنگا کی لہروں میں قربانی کی عکاسی ہے، ہمالیہ کی برفیلی چوٹیوں میں عزم کی جھلک باقی ہے، اور ہر گاؤں کی خاک میں جدوجہد کی مٹی بسی ہوئی ہے۔ بہادر شاہ ظفر کے اشک، سبھاش بوس کی آوازیں، مہاتما گاندھی کی خاموش طاقت علما کی قربانیاں— یہ سب تاریخ کے اوراق میں امر ہیں۔
آزادی کی روشنی بھارت کے ہر دل میں جل رہی ہے، ہر زبان پر نعرہ ہے، اور ہر کتاب میں تحریر ہے۔ بھارت کی آزادی کی داستان نسل در نسل سنائی جائے گی، ہر دل میں یہ سبق زندہ رہے گا کہ اتحاد، قربانی اور علم کے بغیر حقیقی آزادی ممکن نہیں۔
ازقلم: ازہرالقادری
جامعہ مٹہنا
15/08/2025