یوم آزادی و یوم جمہوریہ

اے ملکِ عزیز! ہڈیاں میرے اسلاف کی تیری خاک میں ہیں

ازقلم: آصف جمیل قادری امجدی(انٹیاتھوک،گونڈہ)
9161943293/6306397662

…………75ویں یوم آزادی کا سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ افق ہند پر جلوہ پاشی کررہاہےـ
ہر سال ہم 15 اگست کو یوم آزادی اور 26 جنوری کو یوم جمہوریہ مناتے ہیں ـ اس دن ہم اپنے ان رہنماؤں کو یاد کرتے ہیں جنھوں نے عظیم قربانیاں دے کر ہمیں انگریزوں کی غلامی سے چھٹکارا دلایا تھاـ آزادی حاصل ھوئی 74 برس ھوگئے جسے ہم بڑے تزک و احتشام سے مناتے ہیں یہ ہمارا فریضہ بھی ہے اور نصب العین بھی۔

74سال قبل جب ساون اور بھادوں کے مہینے میں آسمان پر بدلیاں چھائی تھیں، جب گھٹائیں ہندوستان کے دامن سے غلامی کی نجاستوں کو پاک کررہی تھیں،
جب ہمالیہ کی فلک بوس چوٹیوں پر ہماری آزادی کا سورج جلوہ فگن ہورہاتھا،
جب غلامی کی بیڑیاں کٹ رہی تھیں اس وقت ملک کے لوگ یہ فیصلہ کررہے تھے کہ یہ ملک کسی ایک فرقے کا نہ ہوگا, یہاں ہر مذہب و ملت کا احترام ہوگا, اور کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی.
آج پھر گھنگور گھٹائیں چھائی ہیں اور پانی کی بوندیں تازہ ترانے گن گنارہی ہیں اور ہم اس ملک کی یوم آزادی کی 75 ویں سال گرہ منارہے ہیں.
لیکن یہ عجیب و غریب المیہ ہے کہ آزادی کے بعد مسلمان کو نظر انداز کردیاگیا تاریخ کی کتابوں سے لیکر عجائب خانوں تک ان کے نام و نشاں مٹا دیئے گئے…..
اب ہندوستان کی جنگ آزادی کی تاریخ بیان کی جاتی ہے یا لکھی جاتی ہے اس سے مسلم اور غیر مسلم نوجوان طلباء یہی تأثر لے رہے ہیں کہ انگریزی سامراج کے خلاف آزادی کی لڑائی لڑنے والوں میں "مولانا عبد الکلام آزاد, شہید اشفاق اللہ خاں” کے علاوہ بس ایک دو مسلم اورتھے. ایسے تاثر لینے پر نئی نسل مجبور ہے کسی اور مسلمان کا نام آتا ہی نہیں جس نے انگریزی سامراج کے خلاف سخت جد و جہد کی ہے، مصیبتیں جھیلیں ہیں اور جان کی بازیاں لگائی ہیں, پھانسی کے پھندوں کو چوما ہے,انگریزوں کے خلاف تحریک چلائی ہے,قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں.
مگر حقیقت تو یہ ہے کہ انگریزی سامراج کے خلاف لڑائی چھیڑنے والے مسلمان، مصیبتیں اٹھانے والے مسلمان ، قید کی زندگی کاٹنے والے مسلمان اور جان پر کھیلے جانے والے مسلمان رہے ہیں۔
بھارت کے بٹوارے کے وقت ہمیں حق تھا پاکستان جانے کا آپ کونہیں تھا۔ ہمیں حق تھا، لیکن ہمارے اسلاف نے یہ طے کیا تھا کہ یہ وطن ہمارا ہے، ہمارے اجداد کی قبریں ہیں یہاں، ہمارے بزرگوں کے مزارات ہیں یہاں۔ جامع مسجد ہے دلی کی، تاج محل ہے، قلعیں ہیں بزرگوں کی یادیں ہیں یہاں اور یہ سب بھارت کی شان ہیں آج انہیں مسلمانوں کو غدار ٹھہرایا جارہا ہے۔ انہی کا نام لے کر سڑکوں پر مارا جارہا ہے ۔ ہم اپنی مرضی سے رکے تھے، ہمیں کسی نے زبردستی نہیں روکا تھا، جو اپنی مرضی سے رکے ان کے لیے آج یہ کہا جارہاہے کہ جو "وندے ماترم” نہیں کہے گا اسے بھارت میں رہنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ حالانکہ سپرم کورٹ کہہ رہا ہے کہ "وندے ماترم” کے لیے کسی کو مجبور نہیں کیا جاۓ گا سب سے بڑی عدالت تو وہ بھی ہے ۔
بھارت کو آزاد کرانے کےلیے ” ریشمی رومال تحریک” میں لاتعداد علماۓ کرام نے پھانسی کے پھندے کو چوما تھا آج بھی اس بھارت ملک کی مٹی میں نہ جانے کتنے آزادی کے متوالے مسلم شہداء کی لاشیں دفن ہیں ۔
حضرت مولانا ہدایت رسول قادری برکاتی رحمتہ اللہ لکھنوی متوفی ٥١٩١؁ء نے لکھنؤ میں انگریزوں کے خلاف زبردست تحریک چلائی تھی اور "لکھنؤ بند” کا اعلان عام کیا تھا۔ لکھنؤ بند کے دن ساری دکانیں بند تھیں۔ پورے شہر میں کسی طرح کی خرید و فروخت نہیں ہوتی تھی ۔ کسی انگریز نے ایک بوڑھیا سے (جو سبزی بیچا کرتی تھی) کہا کہ مجھے سبزی کی سخت ضرورت ہے اس لیے میں تمہارے پاس آیا ہوں ۔ بوڑھیا نے برجستہ اور بلاخوف و خطر انگریز کو جواب دیا ” "نہیں! آج کچھ نہیں مل سکتا ہے” ہمارے مولانا نے آج لکھنؤ والوں کو منع کیا ہے کہ کوئی بھی دوکان نہیں کھول سکتا ہے اور نہ ہی خرید و فروخت کرسکتا ہے؎
شیر میسور ٹیپو سلطان (شہادت ٩٩٧١؁ء) پورے متحدہ ہندوستان کا بادشاہ جنھوں نے انگریزوں سے لڑتے ہوۓ میدان جنگ کے اندر عین حالت جنگ میں شہادت پائی۔ اور انگریز کمانڈر نے سلطان ٹیپو کی لاش پر کھڑے ہوکر بڑے فخر کے ساتھ کہا تھا "آج سے ہندوستان ہمارا ہے” اسی شیرِ دل نے للکار کر دہاڑا تھا کہ ” شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے "؎
١٦رمضان المبارکا٤٧٢١؁ھ مطابق ٣٠ اپریل ٨٥٨١؁ء کو مفتی کفایت اللہ کافی رحمتہ اللہ علیہ کو انگریزوں نے گرفتار کرلیا ٤مئ ٨٥٨١؁ء کو آپ کا مقدمہ پیش ہوا اور سر سری سماعت کے بعد ٥،٦ مئ کو آپ کے پھانسی کا فیصلہ سنایا گیا۔ نہایت صبر و استقلال اور خندہ پیشانی کے ساتھ آپ نے یہ ظالمانہ فیصلہ سنا۔ مفتی کفایت اللہ کافی جب پھانسی کے پھندے کی طرف قدم بقدم بڑھ رہے تھے تو یہ اشعار پڑھ رہے تھے
؏ ۔۔۔۔
کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہ جاۓ گا
پر رسول اللہ کا دین حسن رہ جاۓ گا

سن 1942ء میں جب ہندو مسلم نے ایک برتن میں کھانا کھایا تھا تب انگریزوں کو لگا تھا کہ اب ہم ہندوستان میں راج نہیں کرپائیں گے۔اور سن 1942ء سے ہی انگریز اپنا بستر باندھنا شروع کردیئے تھے ۔
سن 1947ء میں ہندوستان آزاد ہو گیا تھا۔

زخمی قلب و جگر کیساتھ آگے کی منظر کشی کررہاہوں

سن 1870ع کی تحریک میں تنہا مسلمان انگریزوں سے آزادی کیلئے لڑتے رہے ـ جس میں علمائے اہلِ سنت کی مقدس جماعت پیش پیش تھی.
1:– جلیاں والا باغ میں مسلمانوں نے سینوں پر گولیاں کھاکر یہ بتایا کہ مسلمان ملک کا کیسا وفادرا ہے .
2:– نمک تحریک میں 78 ہزار مسلمان گرفتار ہوۓ، گرفتاری بھی مسلمانوں کی وفادری کی عکاس ہے.
3:– سن1920 سے 1922ع تک کی تحریک آزادی میں 20ہزار مسلمان گرفتار ھوئے.
ان گنت مسلمانوں کو کالا پانی کی قید میں ڈالا گیا. بے شمار علما کی لاشوں کو درختوں سے لٹکایا گیا.
اس طرح بے شمار کارنامے جو مسلمانوں نے انجام دیئے وہ سب مٹانے کی ناپاک کوششیں کی جارہی ہیں.
ہمارے یہ کارنامے شاید آج لوگوں کو نظر نہیں آرہے ہیں یا پھر چشم پوشی سے کام لیا جارہا ہے.
دہلی میں چار ہزار دینی مدرسےقائم تھے
تحریک آزادئِ ھند 1857ء کی لہر اٹھی تو نہ صرف یہ سارے مدرسے گرا دیئے گئے بلکہ پورے دلی شہر میں ایک بھی عالم ، طالب زندہ نہ بچ سکا
انگریز مورخ لکھتاہےکہ
میں نے دلی شہر اور مضافات میں 50 کلومٹر فاصلے کا چکر لگایا ایسا درخت اور شاخ نظر نہ آیا جس پر ایک عالم دین اور تحریک ازادی کے جانثار کی لاش نہ لٹکی ہوئی ہو
،، ناداں ،، پوچھتے ہیں تحریک آزادی میں علما کا کیا کردار رہا

مسلمانو! اٹھو اور اپنی قربانیوں کی داستانیں بچے بچے تک پہنچادو تاکہ دوبارہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ اس ملک کے لیئے مسلمانوں نے کچھ نہیں کیا. اور نسل نو پھر سے محبت کا پیغام لیکر اٹھے, جو ہمارے ملک کو عظمت کی بلندیوں تک لے جائے.

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے