از: بدرالدجی امجدی
"جنگ آزادی” ہندوستانی تاریخ کا ایک اہم باب ہے جس کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا 15 اگست 1947ءکو ہندوستان آزاد ہوا تب سے لے کر آج تک کے ہندوستانیوں کے اندر "جشن یوم آزادی” کے نام پر ایک خوشی کی لہر دوڑ رہی ہے اس دن کو بڑی ہی شان و شوکت کے ساتھ منایا جاتا ہے اور پورے ہندوستان کو نئ ناویلی دلہن کی طرح زیب و زینت سے آراستہ پیراستہ کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ مجاہدین آزادی کے مجاہدانہ کردار کو سراہتے ہوئے جنگ آزادی کا سہرا انھیں کے سر پر رکھا جاتا ہے-
مگر افسوس! کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ جنگ آزادی میں حصہ لینے والوں میں مسلمانوں کی تعداد کتنی تھی؟ شاید نہیں – مسلمانوں کو تو مسلمانوں کی تعداد معلوم ہونے کی بات ہی الگ رہی- ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ جنگ آزادی میں ہمارے رہنماؤں اور علماؤں کی قائدانہ کردار کیا رہا ہے جشن آزادی میں اوروں کے نام تو بڑی ہی عزت اور احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے اور ان کی قربانیوں کو تو دَھْاڑے مار کر بیان کیا جاتا ہے-
مگر افسوس صد افسوس!
ہمارے ان علمائے اہل سنت کا نام تک نہیں آتا جنہوں نے نہ صرف جنگ آزادی میں قائدانہ کردار ادا کیا بلکہ اپنی جان و مال کی قربانی بھی پیش کردی- دنیا میں مسلمانوں نے اپنی قوم اور اپنے وطن کے لئے بے شمار قربانیاں دی ہیں اسی طرح جب ظلم و جبر اور ناجائز طور پر قبضہ کئے ہوئے اپنے پیارے وطن ہندوستان سے تن کے گوروں من کے کالوں کو سمندر پار کھدیڑنے کا وقت آیا تو مسلمانوں نے اپنا تن، من، دھن، سب کچھ داؤں پر لگا دیا، ٹیپو سلطان نے جس قدر قربانی پیش کر کے ایک تاریخ رقم کی 18 ویں صدی میں تاریخ ایسی مثال پیش کر نے سے قاصر ہے ٹیپو سلطان انگریزوں کے لئے ایک آخری قلعہ ثابت ہوئے، انگریزوں کا قبضہ جب پورے ہندوستان پر ہو گیا اس کے بعد انگریزوں نے جو ظلم و ستم اور قتل و غارت کی داستان مسلمانوں کے خون سے رقم کی وہ یقیناً بھلائی نہیں جا سکتی- ہندوستان کے آزادی کے لئے ہر قوم جد وجہد میں لگی ہو تھی مگر سوال یہ اٹھتا تھا کہ پہل کون کرے؟ جب ہندوستانی عوام اسی کشمکش، بے چینی اور اضطراب کے ماحول میں سانس لے رہی تھی اسی وقت ہند کے راجدھانی دہلی میں تاریخی مسجد، جامع مسجد سے ایک آواز انگریزوں کے خلاف جہاد کے نام پر بلند ہوئی یہ آواز قائدِ جہادِ آزادی استاد مطلق امام المنطق حضرت علامہ و مولانا فضل حق خیرا بآدی کی تھی. یہ وہی شخصیت ہے جن کے رگوں میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا خون دوڑ رہا تھا، ذہانت اور یاد داشت کا عالم یہ تھا کہ فقط چار ماہ کے اندر ہی اندر پورا قرآن حفظ کر لیا تھا آپ اپنے وقت کے اعلمِ علماء ہند، سراج ہند حضرت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے شاگرد عزیز تھے. دولت و ثروت کا یہ عالم تھا کہ دوران طالب علمی ہاتھی یا پالکی سےمدرسہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے جایا کرتے تھے، صرف بارہ سال کے عمر میں ایران سے بغرض مناظرہ آئے ہوئے رافضی مجتہدین سے علمی مناظرہ کر کے چھکے چھڑا دینے والی ذات علامہ فضل حق خیرابادی کی تھی- اور انھیں ایسا قائل کیا کہ انھیں سراج ہند حضرت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے مناظرہ کرنے کا جو نشہ سوار تھا وہ سارا کا سارا نشہ اتر گیا اور اپنے وہم و گمان سے مناظرے کا خیال نکال کر رات کی تاریکی میں ہند چھوڑ کر ایران بھاگنا پڑا –
ْآپ ہی نے انگریزوں کے خلاف جہاد عَلَم بلند کیا علماء سے فرضیت جہاد کا فتویٰ لیا جس پر اسی وقت دہلی کے 33 علمائے حق نے دستخط کئے جس کے نتیجے میں
1857 کی جنگ وجود میں آئی مگر افسوس! اپنے ہی کچھ نمک حرام خوروں کے چلتے یہ جنگ آدھی آدھوری رہ گئی جسے انگریزوں نے "غدر” کا نام دیا جس میں قائدین و مجاہدین کی ایک لمبی فہرست مسلمانوں کی تھی اور لاکھوں عوام اہل سنت نے اپنے جانوں کا نذرانہ پیش کر کے "حب الوطنی” کا ثبوت پیش کیا ہزاروں کے تعداد میں علما شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے اور لاکھوں کی تعداد میں مجاہدین سولی پر لٹکائے گئے بلکہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ دہلی سے لے کر اتر پردیش تک کوئی ایسا درخت باقی نہ تھا جس پر علماء حق کا سر نہ لٹکا ہو، 5500 سو سے زائد علماء کرام کو تختے دار پر چڑھایا گیا
1857ء کے سنگین و درد ناک حالات میں علمائے اہل سنت نے مسلمانان ہند کی جو فکری قیادت کی اس سے کبھی بھی مؤرخین اپنا منہ نہیں موڑ سکتے- یہ ایک مسلم الثبوت اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہندوستان کی آزادی علمائے کرام ہی کے دم قدم سے وجود میں آئی ہے جو آگے چل کر "جشن یوم آزادی” کے نام سے ایک خوبصورت تحفہ ہندوستانیوں کو حاصل ہوا ہے-
آج ہم آزادی کی جس خوشگوار اور پر امن فضا میں زندگی کے لمحات بسر کر رہے ہیں، یہ علمائے حق ہی کے سر فروشانہ جذبات اور مجاہدانہ کردار کا ثمرہ ہے- انھیں کے مقدس اور محترم لہو سے شجر آزادی کی آبیاری و آبپاشی ہوئی ہے – اگر انھوں نے بر وقت حالات کے طوفانی رخ کا قلع قمع نہ کیا ہوتا تو آج ہندوستانی یہاں کس حال میں ہوتے- وہ خدا ہی بہتر جانتا ہے –
جنگ آزادی میں حصہ لینے والے مسلمانوں کی فہرست بہت طویل ہے مگر افسوس! جب ہمارا ہندوستان آزاد ہوا، ہماری تاریخ کے چہرے پر دھول ڈال کر مسخ کر نے کی ناپاک کوشش کی گئی، اسے توڑ موڑ اور بگاڑ کر عوام کے سامنے پیش کیا گیا، تاریخ کو محدود کر دیا گیا، وہ مجاہدین جنہوں نے آزادی کا پرچم لہریا تھا ان کے نام تک مٹا دئیے گئے ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ ہمارے ملک کی دیگر قومیں اس میں شامل نہ تھیں، نہیں ہرگز نہیں، انھوں نے بھی اپنے ملک کے لئے ہمارے دوش بدوش شامل رہے لیکن جس طرح سے صرف ایک ہی قوم کے لوگوں کا نام لیکر پرچار اور پرسار کیا جارہا ہے یہ انصاف کا تقاضا نہیں ہے بلکہ یہ تو انصاف کا دن ڈھاڑے خون کیا جارہا ہے – آج ہندوستان کے دھرتی پر چاروں طرف سر سبز و شاداب اور ہریالی کے پھول کھلیں ہیں تو اس کے پیچھے مسلمانوں کا بہتا لہو بھی کار فرما ہے اور خاص کر علماء حق کے حرارت ایمانی نے اپنے گرم خون ہی سے اس مٹی کو زرخیز بنا دیا – ان میں چند علماء کرام کے نام یہ ہیں-
جنگ آزادی کے لیے لوگوں کے اندر روح پھونک نے والی شخصیت علامہ فضل حق خیرابادی کو نمبر ایک پر رکھنا ہی انصاف ہوگا
کون ہے علامہ فضل حق خیرابادی؟؟؟
وہ علامہ فضل حق خیرابادی جن کے والد نہایت ہی جلیل القدر عالم دین تھے جن کا معقولات اور منقولات دونوں میں سِکَّہ چلتا تھا جو منطق اور فلسفہ میں یَدِ طولیٰ رکھتے تھے ایسے ذی شخصیت کے درِ دولت خانہ پر ١٢١٢ھ 1797ء میں ایک بچے کی ولادت ہوتی ہے اسی کو دنیا قاعدِ جہادِ اعظم، استاد مطلق امام المنطق حضرت علامہ فضل حق خیرابآدی کی نام سے جانتی اور پہچانتی ہے-
کون فضل حق خیرابادی؟؟؟
وہی جو بہت ساری تصانیف کے مالک ہیں-
کون فضل حق خیرابادی؟؟؟
وہی جو منطقی بھی فلسفی بھی مُحَشِّی بھی اور مناظر بھی
ہیں-
کون فضل حق خیرابادی؟؟؟
وہی جنہوں نے جنگ آزادی میں قائداعظم کا کردار ادا کیا-
کون فضل حق خیرابادی؟؟؟
وہی جنہوں نے استفتاء جہاد کے ذریعے ہندوستانیوں کے اندر جنگ آزادی کی پہلی لکیر کھینچی پھر اپنی جان کو اپنے پیارے دیش(ہندوستان) کے لئے قربان بھی کردیا-
علامہ ہی کی طرح دوسرے بہت سارے علمائے کرام نے جہاد آزادی میں قائدانہ کردار ادا کیا اور آخر میں اپنی جانوں کو بھی قربان کردیا-
مولانا شاہ احمد اللہ مدراسی رحمۃاللہ علیہ ہی کو دیکھ لیں آپ عالم ہی نہیں، شیخ طریقت بھی تھےآپکے ہزاروں مریدین بھی تھے آپ نے اپنے بے شمار مریدوں کو اکٹھا کیا اورسب کو فوجی تربیت بھی دی، انگریزوں کے خلاف جہاد بھی کیا، جہاد کرتے ہوئے لکھناء تک پہنچ گئے اور آدھے لکھناء پر قبضہ بھی کر لیاتھا لیکن یہاں بھی وہی معاملہ پیش آیا کہ ایک نااہل انگریزوں کے ساتھ مل چکا تھااس کی وجہ سے مولانا احمد اللہ مدراسی کو آدھے مقبوضہ لکھناء سے ہاتھ دھونا پڑا اور آپ شید ہو گئے-
اسی طرح مولانا لیاقت علی اِلہٰ بآدی کو لے لیجیے آپ بھی عالم و شیخ طریقت تھے آپ کے بھی ہزاروں مریدین اور معتقدین تھےآپ نے بھی اپنے مریدوں کو جہاد آزادی کے لئے تیار کیا اور خود بھی ان کے ساتھ مل کر جہاد آزادی میں حصّہ لیا نتیجہ یہ ہوا کہ بعد میں مولانا لیاقت علی الہ آبادی کو گرفتار کر لیا گیا اور آپ کو بھی جزیرہ انڈمان بھیج دیا گیا جسے "کالا پانی” بھی کہا جاتا ہے آج بھی وہیں پر مولانا لیاقت علی الہ آبادی کی قبر موجود ہے-
شیر ہندوستان جنگ آزادی کے مجاہد اعظم ٹیپو سلطان جس نے تن تنہا انگریزوں کے چھکے چھڑا دیئے تھے اپنے ہی کچھ غدار اور نمک حرام انگریزوں کے دلالوں کے چلتے اپنے ہی قول "شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کے سو سالہ زندگی سے بہتر ہے” پر عمل کرتے ہوئے حریت کا یہ آفتاب 4 مئی 1799ء کو سرنگاپٹنم کی سر زمین پر ہمیشہ کے لئے روپوش ہوگیا-
جنگ آزادی کے عظیم قائد وجنرل سرمایہ نازشِ ہندوستان علامہ صدرالدین آزردہ صاحب دہلوی ایک طرف عظیم عالم دین تھے تو دوسری طرف آبروئے شہر تھے-آپ کی بصیرت و قیادت اور علمی استعداد کا لوہا پورے ملک میں مانا جاتا تھا یہی وجہ تھی کہ بہادر شاہ ظفر کو بھی اس بات کا اعتراف تھا کہ جو کام مفتی صدرالدین آزردہ کراستے ہیں وہ کام دوسرے لوگ نہیں کراسکتے ، وہ مفتی صدرالدین صدر الصدور ہی کی ذات تھی جہاں سر بکف مجاہدین کا ایک جم غفیر لگتا تھا المختصر جہاد کے فتوے کے الزام میں چند ماہ جیل کے سلاخوں میں بھی گزارنا پڑا- آخر کار اکیاسی سال کے عمر میں اس جہان فانی کو خیر باد کہہ کر جہانِ جاویدانی کا رخ کر کے سر زمین دہلی احاطہء حضرت نصیرالدین چراغ دہلوی میں ہمیشہ کے لئے روپوش ہوگئے-
غریق بحر رحمت مفتی عنایت احمد کاکوروی کی وہ ذات تھی جو مجاہدین آزادی کے کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے رہے اور جنگ آزادی میں ایسا مجاہدانہ کردار ادا کیا جس کو تاریخ کبھی بھی بھولنے کی جسارت بھی نہیں کر سکتی ہے –
مجاہدین کے لئے مالی امداد اور انگریزوں کے خلاف جہاد پر مشتمل ایک فتوی بریلی سےجاری ہوا جس پر مفتی عنایت احمد کاکوروی کے دستخط ثبت تھے "جنگ آزادی 1857” میں پروفیسر محمد ایوب لکھتے ہیں "انقلاب سے پہلے بریلی میں اس تحریک کے دو ممتاز کار کن موجود تھے مولوی سرفراز علی اور دوسرے مفتی عنایت احمد کاکوروی”
علامہ فیض احمد رسوا بدایونی
مولانا رحمت اللہ کیرانوی
حریت نواز مولانا و ڈاکٹر وزیر علی خاں الہ آبادی
بے باک مجاہد مولاناوہاج الدین مراد آبادی
مولانا امام بخش صہبائی دہلوی
حریت پسند حضرت علامہ و مولانا رضا علی بریلوی
مفتی اکرام الدین صاحب
مولانا عبدالقادر صاحب
مولوی فرید الدین صاحب
مولوی محمد علی صاحب
مفتی رحمت علی صاحب مفتی عدالت عالیہ
مولوی سعید الدین صاحب
مولوی عبدالغنی صاحب
قاضی القضاۃ محمد علی حسینی صاحب
میں اپنی گفتگو مجاہد آزادی میں پائے جانے والے اس مایہ ناز شخصیت پر ختم کرنا چاہتا ہوں جن کو دنیا حضرت علامہ مولانا مفتی کفایت علی کافی مرادآبادی کے نام سے جانتی اور پہنچاتی ہے، جن سے انگریزوں نے پھانسی کے تختے پر چڑھانے سے پہلے پوچھا تھا :کفایت علی کوئی خواہش ہو تو پوری کردی جائے – فرمایا :ہاں، ایک خواہش ہے،؟ کہا کیا خواہش ہے؟ کہا: مجھے کاغذ اور قلم دے دیا جائے میں اپنے نبی کی نعت لکھنا چاہتا ہوں کیسے عاشق رسول تھے حضرت علامہ مفتی عنایت علی کافی کہ دار و رسن پر پہنچ کر بھی اپنے نبی کی گن گارہے تھے، اورکیا ہی خوبصورت نعت لکھی تھی اسی کے ساتھ اپنے قلم کو خاموشی کا جامہ پہناتا ہوں، فرماتے ہیں-
کوئی گل باقی رہے گا نہ چمن رہ جائے گا
پر رسول اللہ کا دین حسن رہ جائے گا
اطلس کم خواب کے پوشاک پر نازاں نہ ہو
اس تن بے جان پر خاکی کفن رہ جائے گا
سب فنا ہو جائیں گے کافی و لیکن حشر تک
نعت حضرت کا زباں پر سخن رہ جائے گا