ظہران ممدانی نیویارک میئر کا الیکشن جیت کر تاریخ رقم کر چکے ہیں۔یہ الیکشن انہوں نے تب جیتا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور طاقت ور بزنس مین ایلون مسک ان کی کھلی ہوئی مخالفت کر رہے تھے۔ظہران پر مسلم نام اور فلسطینی حمایت کی بنیاد پر مذہبی حملے کیے گیے لیکن ان تمام مشکلات سے پار پاتے ہوئے ظہران نے نیویارک جیسے بڑے شہر کا میئر بن کر ثابت کر دیا ہے کہ حوصلے بلند اور ارادے مضبوط ہوں تو کوئی بھی مشکل آپ کو آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔
__مغربی جمہوریت اگرچہ اپنے تضادات کے لیے بھی بدنام ہے لیکن آپ کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ دنیا میں رائج جمہوریت میں سب سے بہتر جمہوریت امریکہ و یوروپ ہی کی ہے۔ظہران ممدانی کی ماں بھارت کی مشہور فلم ڈائریکٹر میرا نایر اور والد انڈیا اور یوگانڈا نژاد پروفیسر محمود ممدانی ہیں۔ظہران کی پیدائش یوگانڈا میں ہوئی۔سال 2015 میں انہوں نے امریکی شہریت حاصل کی اور محض دس سال کے اندر وہ نیویارک جیسے شہر کے میئر بن چکے ہیں۔کیا کسی مسلم یا ایشیائی ملک میں کوئی غیر ملکی شخص اس طرح کامیاب ہو سکتا ہے؟
اس سے قبل پاکستان نژاد صادق خان لندن کے میئر بن کر اور بھارتی نژاد رِشی سُنک برطانیہ کے وزیر اعظم بن کر مغربی جمہوریت کا وہ روپ دکھا چکے ہیں جس کا ہمارے یہاں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
یاد کریں!
جب اٹلی نژاد ہونے کی وجہ سے سونیا گاندھی کے خلاف بھارت میں ایک طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا تھا۔2004 کی پارلیمانی فتح کے بعد جب سونیا گاندھی کے وزیر اعظم بننے کا معاملہ آیا تو سشما سوراج جیسی تجربہ کار لیڈر نے بہ طور احتجاج سر منڈانے کی دھمکی دے ڈالی تھی۔کہا جا رہا تھا کہ کیا ہندوستانی ماؤں کی گود بانجھ ہوگئی کہ وہ وزیر اعظم پیدا نہیں کر سکتیں، آخر ان ہنگاموں سے عاجز آکر سونیا گاندھی نے من موہن سنگھ کو اپنی جگہ وزیر اعظم بنا کر اپنی جان چھڑائی۔جس بھارت میں اٹلی نژاد ہونے کی وجہ سے سونیا کو وزیر اعظم بننے نہیں دیا گیا بعد میں اسی بھارت میں ہند نژاد رِشی سُنک کے برطانوی وزیر اعظم بننے پر خوشیاں منائی گئیں۔
یہ ہے ہمارا جمہوری مزاج !!
_ظہران ممدانی اگرچہ بہت مذہبی مزاج نہیں ہیں لیکن پھر بھی انہوں نے اپنی ظاہری مذہبی پہچان کو چھپانے/لبرل دکھنے یا غیر ضروری سیکولر بننے کی بجائے اس پہچان کو مضبوط کیا۔مسجدوں میں وزٹ کیا، علما اور مسلم کمیونٹی سے علانیہ ملاقاتیں کیں۔فلسطین حامی کی پہچان پر مضبوط رہے لیکن اپنا الیکشن ان مدوں پر لڑا جو لوگوں کی انتظامی ضروریات سے تعلق رکھتے ہیں۔انہوں نے کرایہ داری ختم کرنے، بس سروس اچھی اور مفت کرنے اور چائلڈ کئیر خدمات کا دائرہ بڑھانے کا وعدہ کیا۔انہیں وعدوں اور ان کی کمٹمنٹ دیکھ کر نیویارک کے لوگوں نے انہیں ایک بڑی اور تاریخی جیت سے ہمکنار کیا۔
ظہران کے اس طرز عمل سے ان مسلمانوں کو بھی سبق سیکھنے کی ضرورت ہے جو کئی کئی نسلوں سے امریکہ و یوروپ میں رہ کر بھی وہاں کی سوسائٹی کا فعال حصہ نہیں بن پائے، اور آج بھی اپنے ہی خول میں سمٹے ہوئے ہیں۔
ظہران کی کامیابی نے بتایا ہے کہ اگر آپ کو مقامی مدوں کی سمجھ ہے اور آپ اپنی صلاحیتوں سے مقامی ذمہ داریوں کو پورا کر سکتے ہیں تو وہاں کا نظام آپ کو آگے بڑھنے سے نہیں روکتا۔وہاں کے عوام آپ پر بھروسہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔بس آپ نے خود کو لوگوں کے لیے نفع مند بنانا ہے، جو فرمان رسول بھی ہے:
"خیر الناس من ینفع الناس۔”
جو لوگوں کو فائدہ پہنچائے وہی اچھا انسان ہے۔(الفتح الکبیر: 2/98)
اس لیے نفع بخش بنئے، ان شاء اللہ جہاں رہیں گے عزتیں پائیں گے۔اپنے مذہب/اپنی کمیونٹی اور اپنے معاشرے کے لیے چیزیں آسان بنائیں گے !!
تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی ہاشمی
روشن مستقبل دہلی
5 نومبر 2025 بروز بدھ





