تحریر: فرمان مظاہری
سعادت گنج، بارہ بنکی یو۔پی۔
مقیم حال سعودی عرب
دہلی میں مقیم معروف صحافی جناب ودود ساجد صاحب پی جے پی لیڈر سید شہنواز حسین کے بارے میں لکھتے ہیں کہ بھاگل پور سے الیکشن ہارنے کے بعد ایک مرتبہ وہ اچانک کسی پروگرام میں اسٹیج پر بیٹھ گئے۔ پروگرام میں چلا رہا تھا۔ فہرست مقررین میں ان کا نام نہیں تھا۔ منتظمین نے کہا کہ ودود صاحب ! ان سے بھی تقریر کرا دیجئے۔ میں نے کہا کہ پہلے ان سے منظوری لے لیجئے۔ انہوں نے کہا کہ بلا لیجئے وہ آجائیں گے۔ میں نے با دلِ ناخواستہ ان کے پاس جاکر پوچھا کہ آپ کچھ بولیں گے تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اب میں نے مسلمانوں کے اسٹیج پر بولنا چھوڑ دیا ہے۔
شاہنواز صاحب سَنگھ کے وہ سیاسی مسلم چہرہ ہیں جن کو یہ گمان ہے کہ اگر ہم اس ملک میں سَنگھ کے نورِنظر بنے رہیں گے تو ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ اور ہم اس ملک میں سکون و اطمینان سے اپنی زندگی گزر بسر کرلیں گے۔ لیکن شاید وہ یہ بْھولے ہوئے ہیں کہ جب تک وہ ان سَنگھیوں کے کام آتے رہیں گے تب تک یہ ان کے لئے آنکھوں کا تارہ بنے رہیں گے۔ اور جب دیکھا جائے گا کہ اب یہ ہمارے کسی کام کے نہیں رہے تو ان کو مکھی کی طرح نکال کر الگ کر دیا جائے گا۔ اور آخر میں ان کو اور ان کے اھلِ خانہ کو اس ملک سے وفاداری ثابت کرنے کے لئے دَر دَر ٹھوکریں کھانی ہی پڑیں گی۔
ایسے ہی غلام نبی آزاد جو اس ملک کے معروف مسلم سیاست داں ہیں۔ وہ اپنے چالیس سالوں کے سیاسی سفر میں کانگریس کی جانب سے ایک بار وزیر اعلیٰ اور متعدد بار ملک کی مرکزی حکومت میں وزارت حاصل کرچکے ہیں۔ وہ کئی صوبوں کی انتخابی مہم کے انچارج بھی رہ چکے ہیں۔ اور ابھی جب ان کے راجیہ سبھا کا آخری دن تھا تو پورے ملک نے دیکھا کہ ایک جانب وزیراعظم ان کی تعریفوں کے پل باندھ کر رنجیدہ ہو رہے ہیں ، تو دوسری جانب غلام نبی آزاد صاحب اپنی پارلیمنٹ کی آخری تقریر میں ملک کے تئیں وفاداری ثابت کرکے لوگوں کی ہمدردی بٹورنے کی کوشش کرتے نظر آئے۔ مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ آخر اتنے ماہر ، قدیم اور مضبوط سیاسی شخصیت ہونے کے باوجود ان کو پارلیمنٹ میں اپنی وفاداری ثابت کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ اس سے قبل بھی کانگریس پارٹی کے اعلیٰ کمان کی ناراضگی اور بیجا الزامات پربھی وہ بہت بے بس اور کمزور دکھائی دئے۔ وہ اپنی باتوں سے کانگریس کے تئیں وفاداری دکھاتے ہوئے خبروں میں دیکھے جا چکے ہیں۔ اور حال یہ ہے کہ اس وقت پورے ملک میں کسی بھی پارٹی کی جانب سے سب سے قد آور اور تجربے کار مسلم سیاسی چہرہ اگر کوئی ہے تو وہ غلام نبی آزاد ہی ہیں۔
اسی طرح 2007 سے 2012 تک یوپی میں جب مایاوتی کی حکومت ہوا کرتی تھی تب اس وقت یوپی کے ایک شخص کا نام ہرمسلمان کی زبان پر تھا۔ وہ نام تھا نسیم الدین صدیقی۔ ان کو مایاوتی نے اپنی حکومت میں ایک نہیں دو نہیں بلکہ انیس وزارت کیقلمدان عنایت کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ اس وقت یوپی کے مسلم لیڈاران میں سب سے قد آور لیڈر اگر کوئی ہے تو وہ نسیم الدین صدیقی ہیں۔ لیکن جب مایاوتی سے نسیم الدین صدیقی کے مراسم خراب ہوئے تو ان کا سیاسی سفر ماند پڑ گیا ، ان کی سیاسی طاقت مفلوج ہوکر رہ گئی۔ اور آج وہ کانگریس کے رحم و کرم پر اس کے دامن میں بیٹھے ہوئے اپنی سیاسی زندگی کی تاریکی کو بنفسِ نفیس دیکھ رہے ہیں۔
بات جب یوپی کے مسلم لیڈران کی ہوگی تو اعظم خان کا تذکرہ کرنا لازم ہوجاتا ہے۔ اعظم خان یوپی سیاست کے وہ مسلم چہرہ ہیں جن کو کون نہیں جانتا ؟ مسلم مجلس مشاورت سے اپنا سیاسی سفر شروع کرنے والے اعظم خان کو جب ملائم سنگھ یادو کا ساتھ ملا تو ان کی سیاسی تقدیر ہی بدل گئی۔ یوپی میں جب جب سماجوادی پارٹی کی حکومت وجود میں آئی تب تب اعظم خان کو بڑے بڑے وزارت کی کرسیوں سے نوازا گیا۔ اور جب 2012 میں تیسری بار یوپی میں سماجوادی پارٹی کی سرکار عمل میں آئی تب اعظم خان کو اکھلیش حکومت نے ایک سے زائد وزارت کے قلمدان عطاء کردئے جس سے ان کو یوپی کے سب سے قد آور اور پاورفْل مسلم سیاسی لیڈر شمار کیا جانے لگا۔ اور اسی پاور کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اعظم خان نے اپنے سیاسی حریفوں کو نیچا دکھانے میں کوئی دقیقہ باقی نہ چھوڑا۔ مجھے یاد پڑتا ہے فروری 2013 کو لکھنؤ میں منعقد ہوئے جمعیت علمائے ہند کے اجلاس عام سے خطاب کرتے ہوئے ملائم سنگھ یادو نے کہا تھا کہ ہم نے آپ لوگوں کے مسائل حل کرنے اور پریشانیاں دور کرنے کے لئے اعظم خان صاحب کو پاور دے رکھا ہے۔ آپ لوگ ان کے پاس جاکر اپنے مسائل بیان کریں۔ وہ آپ لوگوں کے تمام مسائل حل کریں گے۔ لیکن آج یوپی کی حکومت بدلی ہوئی ہے۔ اور اعظم خان کی سیاسی رمق پڑمردہ ہوچکی ہے۔ ان کے خوابوں کی تعبیر محمدعلی جوہر یونیورسٹی پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ اب وہی قدآور لیڈر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ اور اس وقت ہر سیاسی گلیاروں میں ان کی مظلومیت کے خاصے چرچے رہتے ہیں۔ اسی طرح یوپی کے دو بڑے سیاسی لیڈران مختار انصاری اور عتیق احمد کا بھی بْرا حال ہے۔ دونوں سالوں سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے روزانہ اپنی رہائی کے لئے دعائیں کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ ملک کے مختلف خطوں کے مسلم لیڈران اپنی اپنی قسمت پر روتے ہوئے دیکھے جا چکے ہیں۔ کشمیر کے تین سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی اسی طرح مدھیہ پردیش کے بھوپال سے عارف مسعود ، بہار کے سیوان سے تعلق رکھنے والے شہاب الدین انصاری ، سب لیڈروں کے سیاسی عروج و زوال اور ان کی مظلومیت کی داستان کو پورے ملک نے دیکھ اور سن رکھا ہے۔ کیا یہ سب سازش کے تحت ہوتا چلا آرہا ہے ؟ یا
وہ ا
پنے کئے کی سزائیں بھگت رہے ہیں ؟ یہ کہنا بھی مشکل ہے۔
یہ بات حقیقت ہے کہ اس ملک کو سنوارنے ، بنانے اور آزاد کروانے میں مسلمانوں کی برابر کی حصے داری رہی ہے۔ انگریزوں کے خلاف لڑائی میں مسلمانوں نے ہندؤں کے کاندھے سے کاندھا ملا کر جنگ آزادی لڑی اور جیتی بھی۔ کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہمارے آباء و اجداد اور اکابرین اس ملک کے غدار تھے یا انگریزوں کے وفادار تھے۔ لیکن آزادی کے تہتر سال گزرنے کے بعد آج بھی بھارتی مسلمانوں کو وقتاً فوقتاً اس ملک سے اپنی وفاداری پیش کرنی پڑتی رہتی ہے۔ اور دوسری طرف ہر مہینے کوئی نہ کوئی ایسی خبریں میڈیا میں گردش کرتی ہی رہتی ہیں کہ فلاں شخص پاکستان کی ایجنسیوں کو خفیہ معلومات فراہم کرتے ہوئے پکڑا گیا۔ تو کبھی اس ملک کی فوج کے خفیہ مشن کو لیک کرکے ملک دشمن ایجنسی (آئی ایس آئی) کے ذریعے کروڑوں روپئے لیتے ہوئے اب تک متعدد افرادگرفتار کئے جا چکے ہیں۔ لیکن ان پر نہ تو کسی چینل پر بحث و مباحثہ کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کی قوم کے خلاف ان کے ذریعے کئے ہوئے جرائم پر کوئی پروپگنڈا خبریں چلائی جاتی ہیں۔ سب کی خبریں اچانک میڈیا سے بالکل غائب کردی جاتی ہیں۔ ابھی ایک سال قبل کی بات ہے مہاراشٹر میں کسی سنگھی کے گھر سے کئی کلو آر ڈی ایکس اور بلیک منی حاصل ہوئی تھی لیکن میڈیا میں نہ ان کی خبروں کا کوئی شور مچا ، اور نہ ہی اس پر کوئی چرچا ہوئی۔ آخر میں معاملے کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا۔ اس لئے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اردو نام والے نہیں ہوتے۔ اگر اس طرح کے جرائم میں کسی اردو نام والے کا نام شامل ہوتا تو اس ملک کی دجالی میڈیا اور نفرت پھیلانے والے سیاسی رہنماؤں نے پورے ملک میں رہنے والے مسلمانوں کا جینا مشکل کردیا ہوتا۔
m.farman9956@gmail.com