تحریر: محمد دلشاد قاسمی
ظالم سے مصطفیٰ کا عمل چاہتے ہیں لوگ
سوکھے ہوئے درخت سے پھل چاہتے ہیں لوگ
جس کو بھی دیکھیے ہے وہی دشمن سکوں
کیا دور ہے کہ جنگ و جدل چاہتے ہیں لوگ
اس وقت مسلمانوں کے تعلق سے سے دنیا کے مختلف خطوں میں بشمول ہندوستان جو حالات پیش آ رہے ہیں اگر ہم ان کا تاریخی اور سیاسی عوامل کی روشنی میں صحیح پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے جائزہ لے تو ہمیں نظر آئے گا کہ دراصل یہ اقتصادی اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے رسہ کشی کسی ہو رہی ہے اس مقصد کے حصول میں اگر کوئی فرد یا گروہ رکاوٹ کا سبب بنتا ہے تو اس کو توڑنے اور بے اثر کرنے کی خاطر بعض قوموں اور مذہبوں کے چند لوگوں کے ذاتی وجذباتی عمل کو اچھال کر پورے مذہب کو متہم کر دیا جاتا ہے طاقت اور سیاست کا یہ کھیل عالمی پیمانے پر ایک عرصے سے جاری ہے اس کے تحت یہی مقصد کارفرما نظر آئے گا یہ بات اب یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ دنیا دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے استحصال کرنے والوں کی ،، دوسرے استحصال کیے جانے والوں کی ،، ان دونوں کے لیے خوبصورت اصطلاح استعمال کی جاتی ہے استحصال کرنے والے ملکوں کو ترقی یافتہ ،، اور استحصال کیے جانے والے ممالک کو پسماندہ اور قابل اصلاح ممالک کے نام دیے جاتے ہیں ،، اس پس منظر میں ہندوستان کے ہندو مسلم قوموں کے مابین کے حالات کو دیکھا جائے تو رام جنم بھومی کا نعرہ سیاسی اقتدار کے حصول کا مسئلہ نظر آئے گا لیکن اس کو مذہبی باور کرایا گیا اسی طرح تقسیم ملک سے عداوت کے جو واقعات پیش آئے وہ سیاسی سطح پر فائدہ اٹھانے کا بڑا ذریعہ بن گئے ہیں ان کا اگر تجزیہ کیا جائے تو ان کی اصل بنیاد مذہب نہیں ہوگا بلکہ اصل بنیاد کوئی سیاسی مفاد یا اقتصادی مفاد ملے گا جس کو مخفی رکھنے کے لئے مذہب کو بڑا ذریعہ اور حربہ بنا کر پیش کیا گیا دراصل مذہب کی بنیاد پر سیاست چلانے والوں کی خاصی تعداد اپنے نجی زندگی میں خود مذہب پر زیادہ عمل کرنے والی نہیں ہوتی اور عموما ایسا ہوتا ہے کہ ایسے سیاسی قائدین مذہب کو بنیاد بنا کر اپنے مطلوبہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ہر قربانی دینے کا اعلان کرتے ہیں اور نتیجے میں انہیں قربانی دینے کی ضرورت نہیں پڑتی قربانی صرف عوام کے حصے میں آتی ہے لیکن جو کرنے کے وہ کام نہیں کیے جاتے، جن کی اس عوام اور ملک کو ضرورت ہے ، نہ کوئی کالج یونیورسٹی بنائی ،، نہ تو یہ قوم پڑھے گی، نہ شعور آئے گا، اور نہ ان کے خلاف کھڑی ہوگی اور نہ کوئی اچھا ہسپتال بنا اور نہ سرکاری ہسپتال کی سودھا درست کی اچھے ہسپتال بنے گے نہیں، اس لئےباقی رہی سہی عوام بیماریوں سے لڑتے لڑتے مر جائے گی وہ ملک پر جس طرح چاہیں راج کریں گے ، اور کر رہے ہیں یعنی آپ تو خوب مرغ مسلم نوش فرمائیں اور ہم سڑکوں پر دھکے کھائیں دو وقت کی روٹی کی خاطر اور پھر بھی وہ نہ ملے ، آپ کے بچے پلے بڑھیں امریکہ اور لندن میں ، اور ہمارے بچے رلتے رہیں یہاں سڑکوں پر نوکریوں کی حاظر ، جو ملتی پھر بھی نہیں،، آپ تو کروائیں گے لندن سے علاج، ہم مریں یا جئیں آپ کو اس سے کیا اور میڈیا بھی صرف ان مدوں پر بات کرتی ہے جو غیر ضروری ہے،
چاہیئے آپ کو کرسی اور بات آپ مذہب بچانے کی کرتے ہیں، مذہب کو کچھ نہیں ہو رہا اور نہ یہ عوام ہونے دے گی، بس آپ لوگ اب اپنی سیاست کے لیے مذہب کو استعمال کرنا بند کردو ، اس سیاست کا مقصد ہم بھی جانتے ہیں اور آپ بھی جانتے ہو۔ اس طرح سے اب عوام کو سڑکوں پر لا کر ملک کو مزید تباہی بربادی کے حوالے نہ کریں ۔
ملک میں امن وامان قائم رکھنا حکومت کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے اور عوام کی بھی ذمہ داری ہوتی ہے اس لیے کہ جب ملک میں بے امن کا ماحول نہیں ہوگا تو ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا ہوگا اور جب افراتفری کا ماحول پیدا ہوگا تو ملک کی معیشت پر برا اثر پڑے گا ،، ملک کمزور ہوگا ،، ملک کی خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ حکومت عوام کو بہتر سے بہتر سہولیات فراہم کرے ،، اور سب کے جان اور مال کے تحفظ کو یقینی بنائے ،، اور جو ملک کا سربراہ ہو اسے ہمیشہ اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ میرے کسی بھی فیصلے سے میرے ہی ملک کی عوام کو کبھی کوئی ٹھیس نہ پہنچے موجودہ وقت میں جس کے کاندھوں پر عوام کی جان اور مال کی حفاظت کی ذمہ داری ہے وہ خود اپنی حفاظت کے لئے کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں اور عوام کی جان کی ان کی نظروں میں کوئی قیمت نہیں عوام بھوک سے تلملائے فٹ پاتھ پر سو جائیں سردی کی زد میں آکر مر جائے کوئی فرق نہیں پڑتا بس اپنی شان و شوکت اپنا جلوہ قائم رہے آج کے حکمرانوں کی تو یہ سوچ ہے کہ ہم ہی سب سے بڑے ہیں اور ہم سب سے قابل ہیں اسی لیے ہم اس منصب پر فائز ہیں ہم جو کہیں گے وہ صحیح ہے اور وہی صحیح ہوگا اور اسی کو تسلیم کرنا ہوگا اور نہ تسلیم کرنے کی صورت میں تمہیں ظلم و ستم کا نشانہ بننا ہوگا جو حکمران اس نتیجہ پر پہنچ جائے تو وہ مغرور ہو جاتے ہیں اور ایسے حکمرانوں کو اپنی رعایا کی کوئی فکر نہیں ہوتی وہ سب سے پہلے خود فائدہ اٹھانے کی اور اس کے بعد اپنے خاندان اور اپنے قریبی لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ اس کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ مجھ سے سوال کرنے والا کوئی نہیں اس لیے ملت کا دانشور طبقہ اس بارے میں غور و فکر کرے اور سیاست میں آنے کا اقدام کریں اور اس سسٹم میں جو خرابی پیدا ہو گئی ہے ان کے دور کرنے کی کوشش کریں ۔
دراصل آج ہم اسی قسم کی سیاست کا تجربہ اور مشاہدہ کر رہے ہیں سیاست ایک گندہ کھیل اور گھناؤنا عمل ہے- ہمارے وطن عزیز بھارت میں یہ کھیل کچھ زیادہ ہی گھناؤنا بنا دیا گیا ہے، یہاں تک کہ کسی شریف باوقار سنجیدہ شخص کے بارے میں جب سنا جاتا ہے کہ وہ سیاست میں ہے تو ہمارے دلوں میں ان کی عزت کم ہوجاتی ہے، کیونکہ ہماری نگاہ میں سیاست کا دین سے کوئی ربط نہیں ہے سیاست خالص دنیاوی معاملہ بن گیا ہے، جس میں جھوٹ مکرو فریب،، فساد کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ سیاست نام ہے بدعنوانی اور بدعہدی کا، عوام کے جذبات سے کھیلنے اور منافرت پھیلانے کا، سیاست نام ہے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کا، آج کے ماہرین سیاست ارباب اقتدار بڑے شدومد کے ساتھ کہتے ہیں کہ سیاست کا مذہب سے کوئی جوڑ نہیں، دونوں کو الگ الگ رکھنے میں ہی بھلائی ہے، تو میں ان کو صاف اور واضح طور پر یہ کہہ دینا چاہتاہوں کہ اسلام اور سیاست کی درمیان بڑا ہی گہرا تعلق اور ربط ہے، اسلام اگر دریا ہے تو سیاست اسکی موج ، اسلام اگر شجر ہے تو سیاست اس پر بکھرنے والی شبنم، اسی مستحکم رشتے کو برقرار رکھتے ہوے میں ڈنکے کی چوٹ پر یہ اعلان کرتا ہوں کہ اسلام اور سیاست دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، مذہب اور سیاست دونوں کا ایک دوسرے سے کافی گہرا تعلق ہے کیونکہ سیاست مکر و فریب کا نام نہیں ہے بلکہ حکمت عملی کا نام سیاست ہے، لائحہ عمل کا نام سیاست ہے، ملک کی تعمیر وترقی کا نام سیاست ہے، امن و سلامتی کا نام سیاست ہے ،خوشحالی انصاف اور مساوات کا نام سیاست ہے ۔
سیاست میں اگر اچھے لوگ ہوں گے تو ہمارا ملک ترقی کرے گا ، ہمارے ملک میں امن ہو گا ، انصاف ہوگا ، بھک مری ختم ہوگی ، اور خوشحالی آئے گی ، اور اگر سیاست میں corrupt (کرپٹ) لوگ ہوں گے تو وہی ہو گا جو آج ہو رہا ہے اس لئے حالات کا رونا چھوڑئیے اور کچھ کرنے کی فکر کریں ۔
26 جنوری 1950 منوسمرتی کے خاتمے کا دن ہے مگر آج بھی منوسمرتی کا قانون مذہب کے روپ میں کلچر کے روپ میں روایات کی شکل میں زندہ ہے ظاہر میں اگرچہ منوسمرتی کا قانون 1950 کو ختم کردیا گیا مگر وہ آج بھی زندہ ہیں کیونکہ دستور نافذ کرنے والوں کی نیت کی خرابی کا اس میں بڑا دخل ہے ،،اس بات کا اندیشہ ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کو تھا اس لئے انہوں نے آئین ساز اسمبلی میں کہا تھا کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ آئین اور قانون چاہے کتنا ہی اچھا ہو وہ برا بھی ہوسکتا ہے جب آئین کے تحت کام کرنے والے خود اچھے نہ ہو اور اس کے برعکس خراب آئین سے بھی اچھے نتائج نکل سکتے ہیں اگر اس کے تحت کام کرنے والے لوگ اچھے ہوں۔