نتیجۂ فکر: عبدالمبین حاتمؔ فیضی، مہراج گنج
بس مجھے اس بات کا ہوتا ہے صدمہ آج تک
ہائے رے کم قسمتی! طیبہ نہ دیکھا آج تک
ان کے چہرے کی تجلی کا کروں کیا تذکرہ
روشنی جب بانٹتا ہے ان کا تلوہ آج تک
نسبتِ شاہِ مدینہ ہی کی برکت کے سبب
مرکزِ اہلِ عقیدت ہے مدینہ آج تک
یوں تو دنیا پل رہی ہے آپﷺ کے سائے تلے
پر کسی نے آپﷺ کا سایہ نہ دیکھا آج تک
ایک پل میں کیسےپہونچے وہ مکاں سےلامکاں
سوچ کر اس کو تَحَیُّر میں ہے دنیا آج تک
صرف انگلی کے اشارے سے قمَر شق ہوگیا
آنکھ نے دیکھا نہیں ایسا نظارہ آج تک
یہ حسینِ ابْن علی کے خون کا احسان ہے
دینِ سرکارِ مدینہ ہے جو زندہ آج تک
جس کو مسجد سے نکالا تھا کبھی سرکار نے
ہے بھٹکتا پوری دنیا میں وہ فرقہ آج تک
بس وہی ہیں نعمتِ مولی کے قاسم !حاتما
یعنی دنیا کھا رہی ہے ان کا صدقہ آج تک