تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ
قسط اول میں یہ بحث مرقوم ہوئی کہ بدیہی میں بھی متعدداسباب کی بنا پر اختلاف ہوتا ہے،نیزفقہا کو کفر کلامی کے ادراک وفہم میں مشکل کیوں درپیش ہوتی ہے؟
قسط دوم میں بدیہی کی مختلف قسموں کو بیان ہے،اور یہ وضاحت ہے کہ بدیہی غیراولی میں مناظرہ بھی واقع ہوتا ہے۔اس کوبدیہی خفی کہا جاتا ہے۔
کفر بدیہی جب بدیہی خفی ہوتو فقہا کے لیے فہم وادراک میں مشکل درپیش ہونا بعید نہیں۔
کفر کلامی کفر بدیہی ہوتا ہے۔ بدیہی کی طرح کفرکلامی کی بھی مختلف قسمیں ہوں گی۔
بد یہی کی دوقسمیں:کسبی وغیر کسبی:
بدیہی کی دو قسمیں ہیں:کسبی اور غیر کسبی۔بدیہی کسبی کی دوقسمیں ہیں۔بدیہی اولی اور بدیہی غیر اولی -بدیہی غیر اولی کی متعددقسمیں ہیں۔
بدیہی غیر کسبی میں اضطراری علم حاصل ہوتا ہے۔
بدیہی کسبی اولی میں عقل کی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
قال التفتازانی:((وما ثبت منہ)ای من العلم الثابت بالعقل (بالبداہۃ)ای باول التوجہ من غیر احتیاج الی تفکر(فہو ضروری کالعلم بان کل الشیء اعظم من جزۂ)فانہ بعد تصور معنی الکل والجزء والاعظم لا یتوقف علی شیء-ومن توقف فیہ حیث زعم ان جزء الانسان کالید مثلا اعظم منہ فہو لم یتصور معنی الجزء والکل۔
(وما ثبت منہ بالاستدلال)ای بالنظر فی الدلیل سواء کان استدلالا من العلۃ علی المعلول کما اذا رأی نارا فعلم ان لہا دخانا،او من المعلول علی العلۃ کما اذا رأی دخانا فعلم ان ہناک نارا-وقد یخص الاول باسم التعلیل-والثانی بالاستدلال۔
(فہو اکتسابی)ای حاصل بالکسب وہو مباشرۃ الاسباب بالاختیار کصرف العقل والنظر فی المقدمات فی الاستدلالیات،والاصغاء وتقلیب الحدقۃ ونحو ذلک فی الحسیات-فالاکتسابی اعم من الاستدلالی،لانہ الذی یحصل بالنظر فی الدلیل-فکل استدلالی اکتسابی-ولا عکس کالابصار الحاصل بالقصد والاختیار۔
واما الضروری فقد یقال فی مقابلۃ الاکتسابی-ویفسر بما لا یکون تحصیلہ مقدورًا للمخلوق-ای یکون حاصلًا من غیر اختیار للمخلوق- وقد یقال فی مقابلۃ الاستدلالی-ویفسربما یحصل بدون فکر ونظر فی الدلیل۔
فمن ہہنا جعل بعضہم العلم الحاصل بالحواس اکتسابیا ای حاصلا بمباشرۃ الاسباب بالاختیار-وبعضہم ضروریا ای حاصلا بدون الاستدلال۔
فظہر انہ لا تناقض فی کلام صاحب البدایۃ حیث قال:
ان العلم الحادث نوعان-ضروری وہو ما یحدثہ اللّٰہ تعالی فی نفس العبد من غیر کسبہ واختیارہ کالعلم بوجودہ وتغیر احوالہ۔
واکتسابی وہو ما یحدثہ اللّٰہ تعالی فیہ بواسطۃ کسب العبد وہو مباشرۃ اسبابہ-واسبابہ ثلثۃ-الحواس السلیمۃ والخبر الصادق وونظر العقل-
ثم قال:والحاصل من نظر العقل نوعان-ضروری یحصل باول النظر من غیر تفکر کالعلم بان الکل اعظم من جزۂ-واستدلالی یحتاج فیہ الی نوع تفکر کالعلم بوجود النار عند رویۃ الدخان)
(شرح العقائد النسفیہ ص43-41-مجلس برکات مبارک پور)
توضیح:صاحب بدایہ نے فرمایا کہ علم حادث کی دوقسمیں ہیں:بدیہی اور کسبی۔
بدیہی غیرکسبی وہ علم ہے جسے اللہ تعالیٰ بندہ کے کسب واختیارکے بغیر بندہ کی عقل میں پیدا فرمائے،جیسے آگ میں ہاتھ ڈالتے ہی بلاکسب وبلا اختیار یقین ہوجاتا ہے کہ آگ جلانے والی ہے۔برف پر ہاتھ رکھتے ہی یقین ہوجاتا ہے کہ یہ ٹھنڈا ہے۔
بدیہی غیرکسبی سے جو علم حاصل ہوتا ہے،اس کو علم اضطراری کہا جاتا ہے۔
بدیہی کسبی وہ علم ہے جسے اللہ تعالیٰ بندہ کے کسب کے بعد پیدا فرماتا ہے۔
کسب سے مراد علم کے اسباب کواختیار کرنا ہے،یعنی حواس سلیمہ،خبرصادق اور نظر عقلی کواختیار کرنا، جیسے کل جزسے بڑا ہوتا ہے تواس کوسمجھنے کے لیے کل اورجز اور اعظم کے مفہوم کوسمجھنا ہے۔
کسبی کی دو قسمیں ہیں:
(۱)بدیہی (۲)ر نظری۔
کسبی میں جو کسب اختیار کیا گیا،اگر وہ نظرواستدلال ہے تووہ کسبی نظر ی ہے۔
وہ کسب اگر نظرواستدلال کے علاوہ ہے تووہ کسبی بدیہی ہے۔
بدیہی کسبی کی دوقسمیں ہیں:بدیہی اولی اوربدیہی غیر اولی۔
بدیہی اولی میں خفا نہیں رہتا ہے،لیکن عقل کی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
بدیہی غیراولی میں کچھ خفا رہتا ہے،جسے تنبیہ کے ذریعہ دور کیا جاتا ہے۔
نظری میں ترتیب مقدمات یعنی نظر واستدلال کے ذریعہ علم حاصل ہوتا ہے۔
نظری دراصل کسبی کی ایک قسم ہے۔ کسبی عام ہے اور نظری اس کی ایک قسم ہے۔
مذکورہ بالا تشریح کے مطابق تین صورت ہوگی۔
(۱)کوئی امر بدیہی ہو، لیکن کسبی نہ ہو،جیسے برف پر ہاتھ رکھتے ہی اس کے ٹھنڈا ہونے کا علم بلاکسب من جانب اللہ حاصل ہوجاتا ہے۔یہ بدیہی غیرکسبی ہے۔
(۲) کوئی امر بد یہی ہو،لیکن اس میں کسب کی ضرورت ہو تو یہ امر بھی بدیہی ہے، لیکن یہ بد یہی کسبی ہے۔اس کی دو قسمیں ہیں:بدیہی اولی اور بدیہی غیر اولی۔
(۳)کوئی امر نظر واستدلال سے حاصل ہوتو یہ امر نظر ی وکسبی ہے۔
مذکورہ بالا تشریح سے واضح ہے کہ کسبی کی دوقسمیں ہیں۔ نظری اور بدیہی۔
بدیہی کسبی کی دوقسمیں:بدیہی اولی و بدیہی غیر اولی :
بدیہی کسبی کی دوقسمیں ہیں:بد یہی اولی اور بدیہی غیر اولی (بدیہی خفی)
امام قطب الدین رازی نے رقم فرمایا:(العلم اما بدیہی-وہو الذی لم یتوقف حصولہ علی نظر وکسب کتصور الحرارۃ والبرودۃ،وکا التصدیق بان النفی والاثبات لا یجتمعان ولا یرتفعان۔
واما نظری-وہو الذی یتوقف حصولہ علی نظر وکسب کتصور العقل والنفس وکالتصدیق بان العالم حادث۔
فاذا عرفت ہذا فنقول:لیس کل واحد من کل واحد من التصور والتصدیق بدیہیا-فانہ لوکان جمیع التصورات والتصدیقات بدیہیا لما کان شیء من الاشیاء مجہول لنا-وہذا باطل وفیہ نظر،لجواز ان یکون الشیء بدیہیا ومجہولا لنا۔
فان البدیہی وان لم یتوقف حصولہ علی نظر وکسب-لکن یمکن ان یتوقف حصولہ علی شیء آخر من توجہ العقل الیہ والاحساس بہ،او الحدس او التجربۃ او غیر ذلک-فما لم یحصل ذلک الشیء الموقوف علیہ،لم یحصل البدیہی-فان البداہۃ لا تستلزم الحصول۔
فالصواب ان یقال:لوکان کل واحد من التصورات والتصدیقات بدیہیا،لما احتجنا فی تحصیل شیء من الاشیاء الی کسب ونظر)
(شرح رسالہ شمسیہ (قطبی)ص:30-طبع ہندی)
توضیح:منقولہ بالا عبارت میں بد یہی اور نظری کی تعریف ہے،اور بدیہی غیر اولی کا ذکر ہے۔
بدیہی کی قسموں کا بیان منطق کی کتابوں میں صناعات خمسہ کی بحث میں ہوتا ہے۔
بدیہی کی چھ قسمیں ہیں:
اقسام وتعریفات مندرجہ ذیل ہیں۔
(1)اولیات(2) مشاہدات:اس کی دوقسمیں ہیں:حسیات اوروجدانیات
(3) متواترات (4) تجربات (5)حدسیات (6)فطریات۔
۱- اولیات:وہ قضایا بدیہیہ جن میں یقین محض تصور طرفین اورتصور نسبت سے حاصل ہو، اور کسی واسطے یا دلیل کی ضرورت نہ ہو، جیسے کل جز سے بڑا ہوتاہے۔
۲-مشاہدات:وہ قضایا بدیہیہ جن کے یقینی ہونے کے لیے حس ظاہر یاحس باطن کا واسطہ بھی ضروری ہو، جیسے سورج چمکنے والا ہے۔میں بھوکاہو۔
ہمیں آنکھ کے ذریعہ معلوم ہوگاکہ سورج چمکنے والا ہے۔یہ ظاہری حس کی مثال ہے۔
میں بھوکاہوں۔یہ حس باطن کے ذریعہ معلوم ہوگا۔
جن قضایا میں حسِ ظاہر کی ضرورت ہے،ان قضایا کو”حسیات“اور جن میں حسِ باطن کی ضرورت ہے، ا نہیں ”وجدانیات“ کہاجاتاہے۔
۳- متواترات:وہ قضایا بد یہیہ جن کایقین ایسی جماعت کے خبر دینے سے حاصل ہوجن کا جھوٹ پر جمع ہونا عقلا محال ہو، جیسے حضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کاروضہ اقدس مدینہ منورہ میں ہے۔ کعبہ شریف مکہ معظمہ میں ہو۔
۴- تجربیات:وہ قضایا بدیہیہ جن پر یقین باربار تجربہ کی بنا پر حاصل ہو اہو، جیسے ڈسپرین سردرد کے لیے مفید ہے۔
۵-حدسیات:وہ قضایا بدیہیہ جن پر یقین کے لیے حدس درکارہو۔حدس کا مطلب مبادی مرتبہ کا ذہن پر دفعتہ منکشف ہونا،مثلا: آوازوں کا ادراک قوت سماعت سے اور رنگوں اور شکلوں کا ادراک قوت بصارت سے حاصل ہوتاہے۔
۶- فطریات: وہ قضایا بدیہیہ کہ جب وہ ذہن میں آئیں تو ساتھ ہی دلیل بھی ذہن میں آجائے،جیسے چارجفت ہے۔ اس قضیہ کے ذہن میں آتے ہی فوراً دلیل بھی ذہن میں آ جاتی ہے کہ چار دوحصوں میں برابر تقسیم ہوجاتاہے،اورجو دوبرابرحصوں میں تقسیم ہوجائے، وہ جفت ہوتاہے،لہٰذا چار جفت ہے۔
خواجہ امین آفندی علی حیدر(م۳۵۳۱ھ)نے رقم کیا:
(وَالْحَاصِلُ أَنَّ الْمُتَوَاتِرَاتِ ہِیَ یَقِینِیَّاتٌ-وَالْیَقِینِیَّاتُ ہِیَ سِتَّۃٌ:
الْأَوَّلُ:الْأَوَّلِیَّاتُ وَیُقَالُ لَہَا الْبَدِیہِیَّاتُ کَالْقَوْلِ:إنَّ الْکُلَّ أَعْظَمُ مِنْ الْجُزْءِ.
الثَّانِی: الْمُشَاہَدَاتُ الْبَاطِنِیَّۃُ وَہَذِہِ الْمُشَاہَدَاتُ غَیْرُ مَوْقُوفَۃٍ عَلَی الْعَقْلِ کَجَوْعِ الْإِنْسَانِ وَعَطَشِہِ وَأَلَمِہِ فَإِنَّ الْبَہَاءِمَ تُدْرِکُہَا أَیْضًا.
الثَّالِثُ: الْمُجَرَّبَاتُ کَکَوْنِ الْخَمْرِ مُسْکِرًا وَالْمُسَہِّلَاتُ مُسَہِّلَۃٌ.
الرَّابِعُ: الْمُتَوَاتِرَاتُ کَعِلْمِ مَنْ لَمْ یَرَ مَکَّۃَ الْمُکَرَّمَۃَ وَبَغْدَادَ بِوُجُودِ تَیْنِکَ الْمَدِینَتَیْنِ
الْخَامِسُ: الْحَدْسِیَّاتُ کَقَضِیَّۃِ أَنَّ نُورَ الْقَمَرِ مُسْتَفَادٌ مِنْ نُورِ الشَّمْس
السَّادِسُ: الْمَحْسُوسَاتُ وَہُوَ الَّذِی یَحْصُلُ بِالْحِسِّ الظَّاہِرِ وَالْمُشَاہَدَۃِ کَکَوْنِ النَّارِ حَارَّۃً وَالشَّمْسِ مُضِیءَۃً.
وَہَذِہِ ہِیَ الْیَقِینَاتُ الَّتِی یَتَأَلَّفُ الْبُرْہَانُ مِنْہَا بِنَاءً عَلَیْہِ لَا تُقَامُ الْبَیِّنَۃُ بِخِلَافِ التَّوَاتُرِ کَمَا ذُکِرَ آنِفًا أَیْ فِی الْمَادَّۃِ- وَإِذَا أُقِیمَتْ لَا تُقْبَلُ ; لِأَنَّہُ إذَا قُبِلَتْ یَجِبُ تَکْذِیبُ الشَّیْءِ الثَّابِتِ ضَرُورَۃً وَلَا یَدْخُلُ الشَّکُّ فِی الضَّرُورِیَّاتِ وَلَا یُحْتَمَلُ الزَّوَالُ فِیہَا فَلَا تُقَامُ بَیِّنَۃٌ عَلَی وَفَاۃِ شَخْصٍ مَعْلُومٍ وُجُودُہُ فِی الْحَیَاۃِ-کَذَلِکَ أَنَّ وُجُودَ بَغْدَادَ مَعْلُومٌ تَوَاتُرًا لِمَنْ لَمْ یَرَہَا فَلَوْ ظَہَرَ أَحَدٌ وَأَرَادَ أَنْ یُثْبِتَ أَنَّہُ لَا وُجُودَ لِمَدِینَۃِ بَغْدَادَ فَکَمَا أَنَّہُ لَا تُقْبَلُ مِنْہُ الْبَیِّنَۃُ الْعَادِیَّۃُ عَلَی ذَلِکَ لَا تُقْبَلُ مِنْہُ بَیِّنَۃُ التَّوَاتُرِ ; لِأَنَّ ذَلِکَ لَمْ یَکُنْ تَوَاتُرًا بَلْ ہُوَ کَذِبٌ مَحْضٌ)(دررالحکام شرح مجلۃ الاحکام:جلدچہارم:ص۰۲۴-مکتبہ شاملہ)
بدیہی غیراولی میں مناظرہ ومباحثہ:
بدیہی غیر اولی کا نام بدیہی خفی ہے۔ اس کے خفا کودور کرنے کے لیے تنبیہ پیش کی جاتی ہے۔عوامی زبان میں دلیل کہہ لیا جائے۔فن مناظرہ میں اس کا نام ”تنبیہ“ہے۔
بدیہی خفی میں مناظرہ بھی ہوتا ہے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ بدیہی خفی اہل علم کے لیے بھی مخفی ہوجاتا ہے۔بدیہی اولی میں مناظرہ نہیں ہوتا ہے،کیوں کہ عقل کی توجہ سے اس میں پایا جانے والا شبہہ دور ہوجاتا ہے۔
کفرکلامی اگر بدیہی خفی کی طرح ہوتو وہ بدیہی رہے گا، لیکن اس کے خفا کو دور کرنے کے لیے دلیل پیش کرنی پڑتی ہے۔
عدم ممارست کے سبب ایسے کفر کلامی کوسمجھنا فقہا کے لیے مشکل ہوسکتا ہے۔ایسی بداہت سے کفر کلامی کی بداہت پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا،اورفقہا کی عدم فہم بھی بعید معلوم نہیں ہوتی۔یہاں ان فقہا کی بحث ہے جو علم کلام میں ماہر نہ ہوں۔عہد حاضر میں بھی یہ کمی موجودہے،لیکن اس کا احساس نہیں۔علم کلام کے وابستگان کی تعداد بھی بہت کم ہے۔
علامہ عبد الرشید جونپوری نے رقم فرمایا:((المدعی من نصب نفسہ لاثبات الحکم بالدلیل)فیما اذا کان الحکم نظریا (او التنبیہ)فیما اذا کان بدیہیا غیر اولی)(مناظرہ رشیدیہ:ص10-طبع ہندی)
ترجمہ:مدعی وہ ہے جو اپنے آپ کو دعویٰ ثابت کرنے واسطے متعین کرے،دلیل کے ذریعہ جب کہ حکم نظری ہو، یا تنبیہ کے ذریعہ جب کہ حکم بدیہی غیر اولی ہو۔
علامہ عبد الرشید جونپوری نے رقم فرمایا:(الدعوی ما یشتمل علی الحکم المقصود اثباتہ)بالدلیل-او اظہارہ بالتنبیہ-وفیہ انہ قد یکون الحکم المُدَّعٰی بدیہیا اولیا-ویمکن ان یقال اذا کان الحکم کذلک لم یتحقق المناظرۃ-لانہ لم ینکرہ الا مجادل او مکابر)(مناظرہ رشیدیہ:ص11 -طبع ہندی)
ترجمہ:دعویٰ وہ ہے جو اس حکم پر مشتمل ہوجس کو دلیل سے ثابت کرنا مقصود ہو،یا جس کو تنبیہ کے ذریعہ ظاہر کرنا مقصود ہو۔اس میں یہ اعتراض ہے کہ دعویٰ کا حکم کبھی بدیہی اولی ہوتا ہے تو اس کا یہ جواب دیا جا سکتا ہے کہ جب حکم بدیہی اولی ہوتو مناظرہ متحقق نہیں ہوگا، اس لیے کہ حکم بدیہی اولی کا انکار صرف مجادل یامکابر کر سکتا ہے۔
علامہ عبد الرشید جونپوری نے رقم فرمایا:((الدلیل ہو المرکب من قضیتین للتأدی الی مجہول نظری-وان ذکر ذلک لازالۃ خفاء البدیہی)الغیر الاولی(یسمی تنبیہا)(مناظرہ رشیدیہ:ص 14-15-طبع ہند)
ترجمہ:دلیل وہ ہے جو دوقضیوں سے مرکب ہو، مجہول نظری تک پہنچانے کے لیے، اور اگر وہ بدیہی غیر اولی کے خفا کودور کر نے کے لیے ذکر کیا جائے تووہ اس کانام تنبیہ ہے۔
توضیح:جب بدیہی غیر اولی میں مناظرہ منعقدہوتا ہے تو اس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ بدیہی غیر اولی اہل علم واہل عقل کے لیے مخفی ہوسکتا ہے۔اسی طرح فقہا کو کفرکلامی بدیہی غیر اولی کی فہم میں مشکل درپیش ہوسکتی ہے۔ علم کلام کے اصول وضوابط کی عدم ممارست کے سبب ایسا ممکن ہے۔عہد حاضرکے فقہا بھی اعتقادی مسائل میں لغزشوں سے بری نہیں۔