غزل

غزل: آہستہ آہستہ

خیال آرائی: فیضان علی فیضان، پاکستان

سرکتا رخ سے ہے ان کے حجاب آہستہ آہستہ
تو چلتے تیر ہیں دل پر جناب آہستہ آہستہ

پلاتے جب ہیں آنکھوں سے شراب آہستہ آہستہ
نشہ بن بن کے چڑھتا ہے شباب آہستہ آہستہ

میرا مجروح دل تب اور بھی بیچین ہوتا ہے
جب اٹھتی رخ سے ہے ان کے نقاب آہستہ آہستہ

حسیں چہرے کو ان کے دیکھ کر لگتا ہے یہ مجھ کو
سرِ تکمیل آئے ہیں خواب آہستہ آہستہ

سوالِ عشق پر ہمدم ذرا شرما کے مسکا کے
دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آہستہ آہستہ

گلی سے جب نکلتے ہیں وہ لہراتے ہوئے زلفیں
تو بجتا ہے میرے دل کا رباب آہستہ آہستہ

بھلے پرواز کتنی ہو بلندی پر اترتا ہے
ہدف پر پڑتے ہی نظریں عقاب آہستہ آہستہ

چمن سے چن رہا ہوں میں تیرے ہی واسطے ہمدم
بچا کر نظریں خاروں کی گلاب آہستہ آہستہ

کنارہ کر لیا ہے زندگی سے جب میری تو نے
ہوئے ہیں بند میری قسمت کے باب آہستہ آہستہ

نہیں ہے مختصر قصہ ‘فیضان’ کی محبت کا
تحمل سے پڑھو دل کی کتاب آہستہ آہستہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے