خیال آرائی: اسانغنی مشتاق رفیقیؔ
درد اک سینے میں ہم سب سے جدا رکھتے ہیں
ہم سے مت پوچھ کہ اس درد میں کیا رکھتے ہیں
چند آنسو کے گُہر ، چند لہو کے نیلم
اپنے کشکول میں آ دیکھ کیا رکھتے ہیں
اے خدا تھام کے رکھ اپنی زمیں کے پائے
دشت میں تیرے قدم آبلہ پا رکھتے ہیں
یوں تو اپنوں سے ہمیں غم ہی ملے ہیں لیکن
اور ہم ان کے لئے صرف دعا رکھتے ہیں
ہم یقیں رکھتے ہیں، رکھتے ہی رہیں گے ان پر
جانے وہ سینے میں کیا اپنے چھپا رکھتے ہیں
خون دل خون جگر اور تمنائے وصال
ان کے ہاتھوں کے لئے ہم بھی حنا رکھتے ہیں
اُن سے کانٹے ہی ملے ہم کو رفیقی لیکن
ہم تو ان کے لئے پھولوں کی ردا رکھتے ہیں