رشحات قلم : حافظ فیضان علی فیضان
وہ چاہے دل کے لئے ہو کہ دل لگی کے لئے
تمہارا قرب ضروری ہے زندگی کے لئے
غمِ فراق سے مرجھا چکا ہے دل کا کنول
تو مثل باراں برس آکے تازگی کے لئے
اسی پہ آج ہے الزام بے وفا ئی کا
جو خود کو وقف کیا ہے تیری خوشی کے لئے
ہزار مل لے کسی سے ہزار بار مگر
خیال ملنا ضروری ہے دوستی کے لئے
جنم دلوں میں یہ لیتی ہے خود بہ خود اکثر
پلان کچھ بھی نہیں ہوتا عاشقی کے لئے
بڑھا کے جاتا ہے کچھ اور دل کی بےتابی
تمہارا آکے چلا جانا دو گھڑی کے لئے
جسے بھی دیکھئیے مطلب کا یار ہے فیضان
کسی کے پاس نہیں وقت اب کسی کے لئے