تحریر : محمد اقرار احمد نوری
تین حروف سے بنا لفظ عید دراصل عربی لفظ عود سے نکلا ہے، جس کے معنی لوٹ آنے اور بار بار آنے کے ہیں۔ عید کیونکہ ہر سال لوٹ آتی ہے اس لئے اس کو عید نام دے دیا گیا. ویسے عید کا تصور اتنا ہی قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ ۔ قدیم تاریخی کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تمدّن دنیا کے آغاز کے ساتھ ہی عید کا آغاز ہوا۔
ایک روایت میں ہے کہ جس روز حضرت آدم ؑ کی توبہ قبول ہوئی، اس روز دنیا میں پہلی بار عید منائی گئی۔ دوسری بار عید اس وقت منائی گئی. جس روز ہابیل اور قابیل کی جنگ کا خاتمہ ہوا تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ کی قوم نے اس روز عید منائی تھی، جس روز آپ یعنی حضرت ابراہیم ؑ پر نمرود کی آگ گلزار بنی تھی۔جبکہ حضرت یونس ؑ کی امت نے اس روز عید منائی ، جس روز حضرت یونسؑ کو مچھلی کی قید سے رہائی ملی تھی۔ اسی طرح حضرت موسیٰؑ کی قوم نے اس روز عید منائی تھی جس روز حضرت موسیٰؑ نے اللہ کی مدد سے بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات دلائی تھی۔ حضرت عیسیٰ ؑ کی امت آج تک اس یوم سعیدکوعید مناتی ہے۔ جس روز حضرت عیسیٰؑ کی ولادت ہوئی۔ جبکہ اس وقت پوری دنیا کے مسلمان رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہونے پر یکم شوال کو عید مناتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے یثرب کے لوگ دو عیدیں منایا کرتے تھے اور اس دوران وہ لوگ بے راہ روی کے مرتکب ہوتے یعنی سیٹیاں بجاتے اور طرح طرح کے لہو و لعب میں مشغول رہتے.
لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تشریف لائے تو مدینہ منورہ میں خالص اسلامی فکر اور دینی مزاج کے مطابق اسلامی تمدن، معاشرت اور اِجتماعی زندگی کا آغاز ہونا شروع ہوا. چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی مدنی زندگی کے ابتدائی دور میں عیدین کا مبارک سلسلہ شروع ہو گیا تھا جس کا تذکرہ سنن ابی داؤد کی حدیث میں ملتا ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اس سے پہلے اہل مدینہ دو دن بہ طور تہوار منایا کرتے تھے جن میں وہ کھیل تماشے کیا کرتے ، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے دریافت کیا فرمایا کہ یہ دو دن جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ ( یعنی اب تہواروں کی اصلیت اور تاریخی پس منظر کیا ہے؟)انہوں نے عرض کیا کہ ہم عہد جاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے۔ یہ سن کر رسول مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالٰی نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے میں تمہارے لیے ان سے بہتر دو دن مقرر فرما دیے ہیں ،یوم (عید ) الاضحٰی اور یوم (عید) الفطر۔ غالباً وہ تہوار جو اہل مدینہ اسلام سے پہلے عہد جاہلیت میں عید کے طور پر منایا کرتے تھے وہ نوروز اور مہرجان کے ایام تھے، مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ تہوار منانے سے منع فرما دیا اور فرمایا اللہ تعالٰی نے ان کے بدلے میں اپنے خصوصی انعام و اکرام کے طور پر عید الفطر اور عید الاضحٰی کے مبارک ایام مسلمانوں کو عطا فرمائے ہیں۔
عید الفطر کی نماز عید (دو رکعت چھ تکبیروں) کے ساتھ پڑھی جاتی ہے، جسے جامع مسجد یا کسی کھلے میدان یعنی عیدگاہ میں ادا کیا جاتا ہے۔
مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اسلام میں انھیں حکم دیا گیا ہے کہ "رمضان کے آخری دن تک روزے رکھو۔ اور عید کی نماز سے پہلے صدقہ فطر ادا کرو”۔
اہل اسلام ہر سال دو عیدیں مناتے ہیں یعنی عید الفطر اور عید الاضحٰی۔ عیدالفطر کا یہ تہوار جو پورے ایک دن پر محیط ہے اسے "چھوٹی عید” بھی کہا جاتا ہے جبکہ اس کی یہ نسبت عید الاضحیٰ تین روز پر مشتمل ہے اور اسے "بڑی عید” کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں سورۃ البقرۃ (185 آیت) میں اللہ تعالٰی کے فرماتے ہیں کہ ہر مسلمان پر ماہ رمضان کے تمام روزے رکھنا فرض ہیں جبکہ اسی ماہ میں قرآن مجید کے اتارے جانے کا بھی تذکرہ ہے لہذا اس مبارک مہینے میں قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے۔
عید الفطر کے دن خصوصی طور پر مسلمان صبح سورج نکلنے سے قبل بیدار ہوجا تے ہیں اور نماز فجر ادا کرتے ہیں پھر دن چڑھے عید کی نماز سے پہلے کچھ میٹھا یا کھجوریں کھاتے ہیں جو سنت رسول ہے اور اس دن یہ روزہ کے نہ ہونے کی بھی ایک طرح سے علامت ہے۔
صدقہ فطر ہر صاحب نصاب مسلمان مرد، عورت، آزاد، عاقل، بالغ پر واجب ہے۔ صدقہ فطر دو 2 کلوگرام گندم، ساڑھے تین کلو گرام جو، کھجور یا کشمش میں سے جو چیز زیر استعمال ہو، وہی دینی چاہیے یا ان کی جو قیمت بنتی ہے. صدقہ فطر ادا کرنے کا وقت آخری روزہ افطار کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے ، لیکن نماز عید سے پہلے تک ادا کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ اس کی مقدار مندرجہ بالا اجناس کی نسبت سے ہے البتہ ان کے علاوہ اس کے برابر قیمت نقدی کی شکل میں بھی ادا کی جا سکتی ہے جس کا تعین مقامی طور کیا جاتا ہے صدقہ فطر کو مدارس یا پھر مقامی ضرورت مندوں غربا اور مساکین بیوگان میں تقسیم کیا جاتا ہے.
مسلمان عید اس موقع پر اچھے یا نئے لباس پہنتے ہیں اور اجتماعی طور پر عید کی نماز ادا کرنے کے لیے مساجد یا عید گاہ جاتے ہیں۔ نماز عید الفطر میں آتے اور جاتے ہوئے آہستہ آواز سے تکبیریں (اللہ اکبر ،اللہ اکبر، لا اله إلا الله، والله اكبر، الله اكبر، ولله الحمد) کہنا اور راستہ تبدیل کرنا سنت ہے۔
اس کے علاوہ عید کے روز غسل کرنا، خوشبو استعمال کرنا اور اچھا لباس پہننا بھی سنت ہے۔
عید کی نماز کا وقت سورج کے ایک نیزہ کے برابر بلند ہو نے سے ضحوہ کبریٰ تک ہے۔ ضحوہ کبریٰ کا صبح صادق سے غروب آفتاب تک کے کل وقت کا نصف پورا ہونے پر آغاز ہوتا ہے۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ ہر نماز کے ادا کرنے سے پہلے اذان کا دیا جانا اور اقامت کہنا ضروری ہے مگر عید کی نماز کو اذان اور اقامت سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے عید کی نماز (دو رکعت چھ تکبیروں) کے ساتھ پڑھی جاتی ہے، جسے جامع مسجد یا کسی کھلے میدان یعنی عیدگاہ میں ادا کیا جاتا ہے. پہلی رکعت میں ثناء کے بعد اور دوسری رکعت میں قرآت سورت کے بعد ہاتھ اٹھا کر تین تین زائد تکبیریں مسنون ہیں۔ عیدالفطر کی نماز کے موقع پر خطبہ ع
ید کے علاوہ
بنی نوع انسانیت کی بھلائی اور عالم اسلام کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں جس میں اللہ تعالٰی سے اپنی کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی مانگی جاتی ہے اور ساتھ ہی اللہ تعالٰی سے اس کی مدد اور رحمت مانگی جاتی ہے۔
رسول اللہ صلی علیہ و آلہ و سلم کے مطابق جب مسلمانوں کی عید یعنی عید الفطر کا دن آتا ہے تو اللہ تعالٰیٰ فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر فرماتا ہے اور ان سے پوچھتے ہیں کہ اے میرے فرشتو ! اس مزدور کی کیا جزاء ہے جو اپنا کام مکمل کر دے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: اس کی جزاء یہ ہے کہ اس کو پورا اجر و ثواب عطا کیا جائے۔ اللہ تعالٰیٰ فرماتے ہیں: اے فرشتو ! میرے بندوں اور بندیوں نے اپنا فرض ادا کیا پھر وہ (نماز عید کی صورت میں) دعا کے لیے چلاتے ہوئے نکل آئے ہیں، مجھے میری عزت و جلال، میرے کرم اور میرے بلند مرتبہ کی قسم! میں اِن کی دعاؤں کو ضرور قبول کروں گا۔ پھر فرماتا ہے: بندو! تم گھروں کو لوٹ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا اور تمہارے گناہوں کو نیکیوں میں بد ل دیا۔ نبی پاک صلی علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: پھر وہ بندے (عید کی نماز سے ) لوٹتے ہیں حالانکہ ان کے گناہ معاف ہو چکے ہوت