عقائد و نظریات

کیا ادب ایمان سے بڑھ کر ہے؟

تحریر: غلام مصطفیٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی

پچھلے دنوں ایک معروف خانقاہی شیخ کی ایک ویڈیو نگاہ سے گزری جس میں موصوف خانقاہ ومدرسے کے مابین غیر ضروری تقابل کرتے ہوئے یوں فرماتے نظر آئے:
"مدرسہ سے پوچھا جائے کہ ارکان اسلام کتنے ہیں تو جواب ملے گا پانچ، لیکن خانقاہ سے پوچھا جائے تو جواب ملے گا چھ، مدرسے کی ترتیب میں سب سے پہلے توحید ہے اس کے بعد نماز روزہ حج اور زکواۃ ہے۔لیکن خانقاہی ترتیب میں سب سے پہلے ادب ہے پھر توحید اور دیگر اعمال ہیں۔”

پیر صاحب کی گفتگو سے انکشاف ہوا کہ ارکان اسلام پانچ نہیں چھ ہیں۔جس میں سب سے اہم رکن ادب ہے۔جو نہ صرف ایمان سے الگ ہے بلکہ ایمان سے پہلے بھی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اہل مدارس ارکان اسلام کی تعداد پانچ کیوں بتاتے ہیں، کیا انہیں ارکان اسلام طے کرنے کا حق حاصل ہے، کہ وہ جتنی چاہیں تعداد بیان کردیں؟
لیکن یہ بات آفتاب سے زیادہ روشن ہے کہ ارکان اسلام کی تعداد کسی مولوی یا مدرسے کی نہیں بلکہ نبی کریم ﷺ کی بیان کردہ ہے۔حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
قَالَ النّبِي ﷺ :بُنِيَ الإِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ : شَهَادَةِ أنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ وَأنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيْتَاءِ الزَّکَاةِ، وَالْحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ۔(بخاری شریف کتاب الایمان رقم الحدیث:8)

"اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : یہ گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔”

اس حدیث پاک سے ثابت ہوجاتا ہے کہ پیغمبر اسلام نے ہی ارکان اسلام کی تعداد پانچ بتائی ہے۔اب اہل مدرسہ پر اعتراض کا کوئی محل نہیں رہ جاتا کہ وہ تو نبی اکرم ﷺ کا ہی فرمان نقل کرتے ہیں۔اگر کسی کو اس تعداد پر اعتراض ہے تو وہ اعتراض مدرسے پر نہیں بلکہ سیدھا حدیث رسول پر پڑتا ہے۔بات صرف یہیں نہیں رکتی بلکہ یہاں دو سوال اور بھی اٹھتے ہیں:
1-کیا کسی فرد کو حدیث رسول پر اضافہ کرنے کا حق حاصل ہے؟
2-کیا ادب کا مقام توحید ورسالت سے بڑا ہے؟

چند اہم نکات بھی ذہن میں رکھیں جو معاملہ سمجھنے میں معاون ثابت ہوں گے:
🔹ارکان اسلام میں پہلے نمبر پر عقیدہ توحید ورسالت ہے۔بقیہ چار ارکان نماز ،روزہ ،حج اور زکواۃ کا تعلق اعمال سے ہے۔
🔹عقیدہ توحید ورسالت بیج اور درخت کی مانند ہے جس پر قائم رہنا ہمیشہ لازم وضروری ہے۔اگر کسی مسلمان کو توحیدو رسالت کے بعد بقیہ ارکان اربعہ میں کسی پر بھی عمل کا موقع نہیں ملا تب بھی وہ مومن مانا جائے گا۔
🔹عقیدہ توحید ورسالت کی اہمیت اس سے بھی واضح ہے کہ اگر کوئی صاحب ایمان، نماز روزے وغیرہ سے دور ہو تب بھی وہ گنہگار تو ہوگا لیکن رہے گا مومن ہی۔اس کی عملی کمزوریاں قابل مغفرت ہیں۔رب کی رحمت، شفاعت رسول یا سزا کے بعد وہ بخشش کا حقدار ہوگا۔
🔹کوئی شخص عقیدہ توحید قبول نہ کرے بھلے ہی ادب وتہذیب اور احترام واکرام کا پیکر ہو مگر وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔
🔹قبر کی زندگی اخروی زندگی کا پہلا زینہ ہے۔قبر میں انسان سے جو سوالات کئے جاتے ہیں وہ عقائد سے ہی متعلق ہیں۔ تمہارا رب کون ہے؟ تمہارا دین کیا ہے؟ تمہارے نبی کون ہیں؟
اگر کوئی عمل عقیدہ توحید سے بڑھ کر ہوتا تو سوالات قبر میں ضرور شامل ہوتا۔

نبی اکرم کا طریقہ تبلیغ

حضور پر نور ﷺ جب بھی دعوت دین پیش کرتے تو اس طرح فرماتے:
يا أيها الناس قولوا: لا إله إلا اللّه تفلحوا۔(أخرجه الإمام أحمد في مسنده:15448 وأخرجه ابن حبان في صحيحه)

"کہ اے لوگو! کہہ دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے تا کہ تم فلاح پاؤ۔”

آپ ﷺ نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف روانہ کیا تو ارشاد فرمایا:
إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ ، فَلْیَکُن اَوَّلَ، مَاتَدْعُوْھُم إِلَیہ شَھَادَۃُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وفی روایۃ:إِلَى أَنْ يُوَحِّدُوا اللَّهَ۔(بخاری شریف رقم الحدیث 1496)

"تم اہل کتاب کی ایک قوم کے پاس جا رہے ہو۔تم انہیں سب سے پہلے اس بات کی دعوت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔دوسری روایت میں ہے کہ تم انہیں سب سے پہلےاس بات کی دعوت دینا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا اقرار کر لیں۔”

یعنی آپ ﷺ سب سے پہلے دعوت توحید پیش فرماتے اور صحابہ کو بھی اسی منہج وطریقے کی تلقین فرماتے۔اگر توحید سے پہلے کوئی اور رکن ہوتا تو حضور ضرور بالضرور توحید سے پہلے اسی کی دعوت دیتے۔

ادب اور توحید ایک جائزہ

ادب کی تعریف میں کئی اقوال ملتے ہیں مختصراً اتنا سمجھ لیں:
حسین لہجے، خوب صورت پیرایہ میں بات کرنے، متانت وسنجیدگی ، عزت واحترام، اخلاق وتہذیب ، عجز وانکساری اور شرم وحیا وغیرہ کو ادب میں شمار کیا جاتا ہے۔یعنی بہرحال ادب کا تعلق انسانی اعمال سے ہے عقیدے سے نہیں۔
دوسری جانب توحید ورسالت دنیا کی سب سے بڑی اچھائی اور کمال کا نام ہے۔اس سے بڑھ کر کوئی کمال نہیں حضرت سفیان بن عبد اللہ ثقفی بیان کرتے ہیں:
قُلْتُ: يا رَسُولَ الله، قُلْ لي في الإِسْلاَمِ قَوْلًا لاَ أَسْأَلُ عَنْهُ أَحَدًا غَيْرَكَ، قَال: "قُلْ: آمَنْتُ باللهِ ثُمَّ اسْتَقِمْ۔(صحیح مسلم کتاب الایمان 1/65 رقم الحدیث38)
"یا رسول اللہ مجھے اسلام کے متعلق کوئی ایسی بات بتادیں کہ میں آپ کے بعد کسی سے نہ پوچھوں۔آپ نے فرمایا کہ یوں کہو کہ میں اللہ پر ایمان لایا اور اس پر قائم رہو۔

الفاظ حدیث پر غور فرمائیں کہ حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی وہ بات جاننا چاہتے ہیں جو سب سے افضل ہو، جواب میں حضورﷺ انہیں توحید کے اقرار اور اس پر قائم رہنے کی تلقین فرماتے ہیں۔اگر ادب عقیدہ توحید سے بڑھ کر ہوتا تو نبی رحمت ﷺ توحید ورسالت کی بجائے ادب کی تلقین فرماتے۔

یہاں یہ نکتہ بھی ذہن نشیں رکھیں کہ اگر کوئی غیر مسلم مسلمان ہونا چاہے تو حکم یہ ہے اسے پہلی فرصت میں توحید ورسالت کا اقرار کرایا جائے۔قبول اسلام کرانے میں ذرا سی تاخیر بھی جائز نہیں۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فرماتے ہیں:
"جو کافر تلقین اسلام چاہے اسے تلقین فرض ہے اور اس میں دیر لگانا اشد کبیرہ بلکہ اس میں تاخیر کو علما نے کفر لکھا۔”
(فتاوی رضویہ 21/172)

پیر صاحب کی مانی جائے قبول اسلام کو آنے والے کافر سے یہ کہا جائے گا پہلے ادب سیکھو اس کے بعد مسلمان بنایا جائے گا۔اگر ادب سیکھنے دوران وہ مر جائے یا اس کا ارادہ بدل جائے تو اس کے کفر کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی؟

صحیح بات یہ ہے کہ پیر صاحب جوش غضب میں نہایت کمزور بات کہہ گئے جس کی زد سیدھے فرمان رسول پر پڑتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ادب عقیدہ توحید ورسالت کے بعد کا درجہ ہے جیسا کہ فرمان خداوندی ہے:
لِّتُؤۡمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَرَسُوۡلِہٖ وَتُعَزِّرُوۡہُ وَ تُوَقِّرُوۡہُ ؕ وَ تُسَبِّحُوۡہُ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا۔(سورۃ الفتح:9)
"تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو۔”

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ۔(سورۃ الحجرات:2)
"اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے۔”

ان آیات میں توحید ورسالت کے بعد ہی تعظیم وتوقیر رسول کا حکم دیا گیا، تعظیم و تکریم ادب کا ہی نام ہے۔جیسا کہ صدرالافاضل فرماتے ہیں:
"یعنی جب حضور کی بارگاہ میں کچھ عرض کر و تو آہستہ پست آواز سے عرض کرو ، یہی دربار رسالت کا ادب و احترام ہے۔”

نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں:
الإيمان بضع وسبعون شعبة، فأفضلها: قول لا إله إلا الله، وأدناها: إماطة الأذى عن الطريق، والحياء شعبة من الإيمان۔(بخاري شریف، كتاب الإيمان)
"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایمان کی ستر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں جن میں سب سے افضل لَا إِلٰهَ إِلَّا ﷲ (یعنی وحدانیتِ الٰہی) کا اقرار کرنا ہے اور ان میں سب سے نچلا درجہ کسی تکلیف دہ چیز کا راستے سے ہٹا دینا ہے۔اور حیا بھی ایمان کی ایک (اہم) شاخ ہے۔

درج بالا حدیث میں حیا(ادب) کو ایمان کی شاخ قرار دیا گیا ہے یعنی ادب خود ایمان کی شاخ ہے۔شاخ کتنی ہی اچھی اور بڑی ہوجائے مگر اپنی جڑ اور اصل سے کبھی نہیں بڑھ سکتی اور نہ اس سے پہلے ہوسکتی ہے۔
ادب کو توحید سے پہلے ماننا ایسا ہی ہے جیسے شاخ کو درخت اور اولاد کو باپ سے پہلے مانا جائے جو ناممکن ہے۔اصل چیز یہ ہے کہ ادب اہل ایمان کا زیور اور مشرب ہے۔یعنی اصل ادب ملتا ہی ایمان کے بعد ہے۔ایمان سے پہلے جو بھی ادب ہے وہ بس نمائشی اور کاغذی ہے۔عقیدہ توحید ورسالت کو چھوڑ کوئی ادیب منشی پریم چند اور شیکسپیئر تو ہوسکتا ہے لیکن مخدوم سمناں اور امیر خسرو نہیں ہوسکتا۔

تازہ ترین مضامین اور خبروں کے لیے ہمارا وہاٹس ایپ گروپ جوائن کریں!

آسان ہندی زبان میں اسلامی، اصلاحی، ادبی، فکری اور حالات حاضرہ پر بہترین مضامین سے مزین سہ ماہی میگزین نور حق گھر بیٹھے منگوا کر پڑھیں!

ہماری آواز
ہماری آواز؛ قومی، ملی، سیاسی، سماجی، ادبی، فکری و اصلاحی مضامین کا حسین سنگم ہیں۔ جہاں آپ مختلف موضوعات پر ماہر قلم کاروں کے مضامین و مقالات اور ادبی و شعری تخلیقات پڑھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اگر آپ اپنا مضمون پبلش کروانا چاہتے ہیں تو بھی بلا تامل ہمیں وہاٹس ایپ 6388037123 یا ای میل hamariaawazurdu@gmail.com کرسکتے ہیں۔ شکریہ
http://Hamariaawazurdu@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے