تحریر: طارق انور مصباحی، کیرالہ
بھارت کے موجودہ سیاسی حالات,بلکہ سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد سے ہی بھارت کی سیاست مسلمانوں کو قبول کرنے سے انکار کرتی رہی ہے۔
ہندو مسلم اتحاد کا سب سے بڑا داعی سر سید احمد خاں بانی علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی اور اتحاد کا دوسرا بڑا داعی محمد علی جناح بانی پاکستان انجام کار اتحاد کے نعرے سے الگ ہو کر دو قومی نظریہ کی طرف قدم بڑھا لئے۔
ایسے پر آشوب سی ماحول میں مناسب تھا کہ شرعی شرائط کے ساتھ بوجہ حاجت بدمذہب کلمہ گو جماعتوں سے سیاسی اتحاد کی اجازت دی جائے۔
لیکن ہر وہ شخص جو سیاسی مد وجزر اور شرعی نزاکتوں کا تقابل کرے گا,وہ سیاسی اتحاد کی بھی اجازت نہیں دے گا,کیوں کہ سیاسی اتحاد میں بھی ظن غالب,بلکہ ظن اغلب قریب بہ یقین ہے کہ بہت سے عوام اور مریض القلب خواص مذہبی معاملات میں صلح کلیت کے شکار ہو جائیں گے۔
ایک راہ مجھے نظر آتی ہے کہ سیاسی اتحاد کی جگہ سیاسی محاذ پر فکری ہم آہنگی پیدا کی جائے,یعنی کسی بھی سیاسی معاملے میں تمام کلمہ خواں جماعتیں متحدہ نظریہ پیش کریں۔اگر وہاں کوئی فکری اختلاف کرے توفکری اختلاف کو دبایا جائے۔
الیکشن کے وقت ووٹنگ, سیاسی جلوس,احتجاجات ومطالبات,مخالفین کے دفاع وغیرہ سیاسی وسماجی امور میں فکری وحدت کی کوشش کی جائے۔
ہم نے مختلف جہات سے سیاسی اتحاد کے جواز پر غوروفکر کیا۔کبھی ایک قدم آگے بڑھتا ہوں اور پھر قدم پیچھے کر لیتا ہوں۔
دنیاوی مفادات کے تحفظ کی خاطر میں امت مسلمہ کے ایمان کو غارت نہیں کرنا چاہتا۔دنیا میں بس چند دنوں تک رہنا ہے۔جب کہ اخروی زندگی دائمی اور ناقابل زوال ہے۔
روشن خیال تو میں بھی ہوں,لیکن میرے روشن تخیلات اور منور تفکرات کو اسلام کی روشنی اور دین مصطفوی کا نور روشن و منور کرتا ہے,اس لئے آخرت کو پیش نظر رکھ کر فیصلہ کرتا ہوں:وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم::والصلوۃ والسلام علی حبیبہ الکریم::وآلہ العظیم