من جانب : اے رضویہ ممبئی مرکز جامعہ نظامیہ صالحات کرلا
دن لَہْو میں کھونا تجھے شب صبح تک سونا تجھے
شرمِ نبی خوفِ خدا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
اللّٰہﷻ کی عطا اللّٰہ کی رحمت بے شمار ہے۔ سب سے بڑی رحمت یہ کہ ہمارے دلوں میں اپنے محبوب وجہ تخلیقِ کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی محبت ڈال دی اور اپنے صالحین بندوں کی اور ہمیں سورہ فاتحہ میں انھیں کے راستے پر چلنے کی دعا سکھائی جس کا راستہ تیرے حبیبﷺ سے جا ملتا ہے۔ یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا۔
اور وہ اپنے بندوں کی آزمائش بھی لیتا ہے ان کی جنھیں وہ پسند کرتا ہے۔ مومن کی بہت سی پریشانیاں اس کی آزمائش کے لئے بھی ہوتی ہے کچھ اسے سزا دینے کچھ عبرت کے لئے کہ ہماری قوم کے رہنماؤں کا مزاق اڑانے سے۔ مراد علماء کی توھین کرنے سے۔ کیا تم حق بتانے والی علماء کی جماعت کا. مذاق نہیں اُڑاتے ہو جبکہ اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو قیامت کی وہ نشانی کے علماء اٹھا لئے جائینگے. اپنے حصے میں جتنا علم سمیٹنا ہے انکے پاس بیٹھو اور اسلام کی تاریخ معلوم کرو گوگل کو اپنا گرو نہ بناؤ اسکی معلومات سے کچھ حاصل نہ ہوگا. اپنی بیٹیوں بیٹوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرو یاد رہے دین کی تبلیغ کرنے والوں پر طعنہ زنی کرنابند کر دو ، ان کی توہین کرنا ایمان والوں کا شیوہ نہیں ہے. کفار و منافقین کا طریقہ ہے.
شاید آپکو یاد نہیں کہ جب شروع اسلام میں مسلمانوں پر طعنہ زنی کون کرتا تھا؟؟ کافروں کے علاوہ ایک اور جماعت تھی نا. منافقین کی جو بظاہر کلمہ گو تھے مگر ایمان کے کمزور تھے.
اب فیصلہ کرو کہ تم کس صف میں ہو.
اب میرے اس مضمون کو بغور پڑھیں کہ آزمائشوں کی ایک حکمت یہ ہے کہ اس سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔
چنانچہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مسلمان کو جو تھکاوٹ ، بیماری ، پریشانی ، غم ، تکلیف اور صدمہ پہنچے یہاں تک کہ اس کے پیر میں کوئی کانٹا ہی چبھے تو اللہ تعالیٰ ان کے سبب اس کے گناہ مٹا دیتا ہے۔
: بخاری ، 4 / 3 ، حدیث : 5641
ایک جگہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مسلمان مرد و عورت کے جان ، مال اور اولاد میں ہمیشہ مصیبت رہتی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملتا ہےکہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔
: ترمذی ، 4 / 179 ، حدیث : 2407
اصل مسئلہ : اب رہی وہ بات جس پر سیکولر ، لبرل لوگوں کو مسلمان کہلا کر بھی سب سے زیادہ غصہ آتا ہے کہ گناہوں کی وجہ سے بھی مصیبتیں ، پریشانیاں ، بیماریاں اور وبائیں آتی ہیں یا نہیں؟ اور گناہوں میں بھی سب سے زیادہ ناراضی اِن لوگوں کو جس گناہ پر ہوتی ہے وہ بے حیائی ہے۔ اُن کے دِلوں کی خواہش ہے کہ اس من پسند ، خوش کُن ، نفس پرور گناہ کے بارے میں ہرگز کچھ کلام نہ کیا جائے۔ اب ہم اس کا تفصیل سے جواب دیتے ہیں۔ جواب یہ ہے کہ گناہوں اور بے حیائیوں کی وجہ سے یقیناً مصیبتیں اور وبائیں آتی ہیں اور اگر آپ مسلمان ہیں تو آپ کو قرآن کی ان آیات پر ایمان رکھنا ہی ہو گا جن میں یہ سب چیزیں بیان کی ہیں۔ مسلمان ہوتے ہوئے یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ آدھی آیات مان لیں اور آدھی کا انکار کر کے طاغوتوں یعنی اسلام دشمن فلسفیوں پر ایمان رکھیں۔
گناہوں کی وجہ سے بھی مصیبتیں آتی ہیں چنانچہ
: قرآن فرماتا ہے۔۔
وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)
ترجمہ: اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب سے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا۔ اور بہت کچھ تو اللہ معاف فرما دیتا ہے۔
ترجمہ کنزلایمان: پارہ 25 سورہ الشورٰی/30.
دوسری آیت میں فرمایا:..
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(۴۱)
ترجمہ: چمکی خرابی خشکی اور تری میں ان برائیوں سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمائیں تاکہ انھیں ان کے بعض کوتکوں (کاموں)کا مزہ چکھائیں وہ باز آ جائیں۔
ترجمہ : کنزلایمان پارہ 21 سورہ الروم/41.
اب میرا سوال ہے کہ وہ تمام لوگ جو خود کو مسلمان کہتے ہیں اُن کا اِن آیات پر ایمان ہے یا نہیں؟ اگر ہے اور امید ہے کہ ہو گا تو خود ہی بتائیں کہ برے اعمال کے سبب تکالیف آنا قرآن سے ثابت ہوا یا نہیں اور وہ بھی سابقہ امتوں کا نہیں بلکہ اِسی امت کا بیان ہو رہا ہے۔
رزقِ خدا کھایا کیا فرمانِ حق ٹالا کیا
شکرِ کرم ترسِ سزا یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
اب آئیے ذرا بے حیائی کی وجہ سے دنیا میں سزا و عذاب کی طرف ، تو خدا کا فرمان سنیں :
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹)
ترجمہ:وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں برا چرچا پھیلے (بے حیائی کی بات پھیلے) ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
ترجمہ کنزلایمان: پارہ 18 سورہ النور/19.
اسی بے حیائی سے بیماریاں پھیلنے کے متعلق نبیِّ کریم ﷺ کا فرمان بھی پڑھ لیں ، فرمایا : جس قوم میں زناکاری یا سود خوری عام ہوجائے وہ اپنے لئے اللہ کے عذاب کو حلال کر لیتی ہے۔
: الترغیب و الترھیب 3/191 حدیث نمبر 29.
دوسری حدیثِ مبارک میں ہے کہ…. جب تم پانچ چیزوں میں مبتلا ہو جاؤ اور میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ تم ان چیزوں میں مبتلا ہو ، (ان میں پہلی چیز بیان فرمائی) پہلی یہ کہ جس قوم میں بے حیائی اعلانیہ ہونے لگے تو اس میں طاعون اور ایسی ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان سے پہلے لوگوں میں نہ تھیں۔
: ابنِ ماجہ ، 4/367, 368 حدیث/ 4019
آیات و احادیث سے واضح ہوا کہ گناہوں کے سبب بھی بیماریاں ، مصیبتیں آتی ہیں۔ اب رہی یہ بات کہ کیا ہم کسی متعین بیماری یا وبا کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ یہ گناہوں کی وجہ ہی سے ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب آفات و مصائب کے مختلف اسباب و مقاصد ہیں تو عام الفاظ میں تو کہہ سکتے ہیں کہ مصیبتیں گناہوں کی وجہ سے آتی ہیں لیکن کسی خاص مصیبت اور خاص فرد کے بارے میں عذاب کا متعین حکم نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ ہاں! احتمال ہوتا ہے لیکن لبرلز اور سیکرلرز کا عذاب ہونے کا مذاق اڑانا سراسر باطل ہے۔ ہمارے اوپر کے کلام سے بہت سے اعتراضات کا جواب واضح ہو جائے گا مثلاً جو لوگ کہتے ہیں کہ اگر وبائیں عذاب ہیں تو صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین وباؤں کا شکار کیوں ہوئے؟ تو جواب یہ ہے کہ ان کے لئے عذاب نہیں بلکہ بلندئ درجات کا سبب ہے۔ جو کہتے ہیں کہ اگر وبائیں عذاب ہیں تو عام مسلمان اس میں کیوں مبتلا ہیں تو اس کا جواب ہے کہ بہت سے مسلمانوں کے حق میں یہ تنبیہ ہے اور بہت سے گناہگاروں کے لئے گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے اور بہت سے مسلمانوں کے لئے امتحان ہے اور بہت سے بدکاروں کے لئے عذاب ہے اور بہت سے لوگ جن کو کوئی تکلیف نہیں پہنچی ان کے لئے دوسروں کو دیکھ کر عبرت کا موقع ہے یا بہت سے بدکاروں کے لئے ڈھیل ہے۔ اب یہ سوال ہے کہ بڑے بڑے گناہگار یا بےحیائی میں ڈوبے ہوئے ملک یا علاقے یا لوگ تو اس کا شکار نہیں ہوئے حالانکہ ان کوسب سے پہلے شکار ہونا چاہئے تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کی یہ اوقات نہیں کہ خدا کو مشورے دیں کہ وہ یہ کرے اور یہ نہ کرے۔ اس کی شان فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ ہے۔ وہ علیم و حکیم ہے۔ اس سے نہیں پوچھا جائے گا کہ فلاں کام کیوں کیا اور فلاں کیوں نہیں کیا ، ہاں! بندوں سے پوچھا جائے گا کہ اپنے اعمال کا حساب دو ، لہٰذا مفت کا چودھری بننے کی حاجت نہیں۔
اب رہا یہ سوال کہ جب عذاب ہونا متعین نہیں تو پھر توبہ و استغفار کا کیوں کہا جاتا ہے تو اس کا جواب نبیِّ کریمﷺ کے عمل و سنّت و تعلیم میں موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ توبہ و استغفار کے لئے ضروری نہیں کہ قطعی طور پر ثابت ہو کہ موجودہ تکلیف عذابِ الٰہی ہی ہے؟ بلکہ عذاب ہونے کے احتمال پر بھی توبہ و استغفار کرنا سنّت بلکہ اس کا حکم ہے۔ آئیے! آپ کو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا عمل بتاتی ہوں ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آندھی آتی تو حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ دعا پڑھتے :
اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ خَیْرَھَا وَخَیْرَ مَا فِیْہَا وَخَیْرَ مَا اُرْسِلَتْ بِہٖ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّھَا وَشَرِّ مَا فِیْہَا وَشَرِّ مَا اُرسِلَتْ بِہٖ
ترجمہ: اے اللہ! میں تجھ سے اس ہوا کی بھلائی چاہتا ہوں اور جو اس ہوا میں بارش وغیرہ ہو اس کی بھلائی چاہتا ہوں اور جس غرض کے لئے یہ بھیجی گئی اس کی بھلائی چاہتا ہوں ، اے اللہ! میں اس ہوا کی برائی سے پناہ مانگتا ہوں اور جو چیز اس میں ہے اور جس غرض سے یہ بھیجی گئی ہے اس کی برائی سے پناہ مانگتا ہوں۔
اور جب آسمان پر بادل گرجتے تو چہرۂ انور کا رنگ تبدیل ہو جاتا اور خوف کی وجہ سے کبھی اندر تشریف لاتے ، کبھی باہر تشریف لے جاتے اور جب بارش ہو جاتی تو آپ کا خوف دور ہو جاتا۔ میں نے عرض کیا : یارسولَ اللہ! لوگ جب اَبر دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں کہ بارش کے آثار معلوم ہوئے مگر آپ پر ایک گرانی محسوس ہوتی ہے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : عائشہ! مجھے اس کا کیا اطمینان ہے کہ اس میں عذاب نہ ہو۔ قومِ عاد کو ہوا کے ساتھ عذاب دیا گیا تھا ، وہ عذاب کو دیکھ کر خوش ہوئے تھے (کہ اس میں ہمارے لئے پانی برسایا جائے گا حالانکہ اس میں عذاب تھا)۔
: مسلم شریف صفحہ 348 حدیث: متقطاً 2084 ، 2085۔
(اور یہ خوف ہمارے آقاﷺ کو امت کے لئے تھا۔)
اللہ جَلَّ شَانُہٗ کا ارشاد ہے :
فَلَمَّا رَاَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِیَتِهِمْۙ-قَالُوْا هٰذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَاؕ-بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِهٖؕ-رِیْحٌ فِیْهَا عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ(۲۴) تُدَمِّرُ كُلَّ شَیْءٍۭ بِاَمْرِ رَبِّهَا فَاَصْبَحُوْا لَا یُرٰۤى اِلَّا مَسٰكِنُهُمْؕ-كَذٰلِكَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِیْنَ(۲۵)
ترجمہ: پھر جب انہوں نے اسے (یعنی عذاب کو) بادل کی طرح آسمان میں پھیلا ہوا انکی وادیوں کی طرف آتا یہ بولے بادل ہے ہم پر برسے گا۔ (کہا گیا کہ نہیں) بلکہ یہ تو وہ ہے جس کی تم جلدی مچاتے تھے ، یہ ایک آندھی ہے جس میں دردناک عذاب ہے۔ یہ اپنے رب کے حکم سے (ہر چیز کو تباہ کر دیتی ہے) تو صبح رہ گئے کہ نظر نہ آتے تھے. مگر انکے سونے مکان، ہم ایسی ہی سزا دیتے ہیں مجرموں کو۔
کنزالایمان، : پارہ 26 ، سورہ الاحقاف : 24 ، 25
یونہی نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب گرج چمک کی آواز سنتے تو دعا کرتے:۔۔
اَللّٰهُمَّ لَاتَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَلَاتُہْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَعَافِنَا قَبْلَ ذَلِکَ ترجمہ : اے اللہ! ہمیں اپنے غضب سے ہلاک نہ کرنا اور نہ ہمیں اپنے عذاب سے تباہ کرنا اور ہمیں اس سے پہلے عافیت عطا فرما۔
: ترمذی ، 5 / 281 ، حدیث : 3461۔
معلوم ہوا کہ کسی مصیبت ، پریشانی کے عذاب ہونے کے احتمال پر بھی توبہ و استغفار کیا جائے گا۔ اب موجودہ وبا پر غور کر لیں کہ کیا یہ گناہوں کے سبب ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اور اس پر استغفار کرنا چاہیے یا نہیں؟ سنّتِ نبوی کا تقاضا یہی ہے کہ ڈرا جائے کہ کہیں یہ عذاب نہ ہو اور سنّت یہی سکھاتی ہے کہ اس پر استغفار کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ قرآن و حدیث پر ایمان رکھنے والوں کے دِلوں کو ٹیڑھے پن سے بچائے اور تمام مسلمانوں کی مغفرت فرمائے۔