افسانہ نگار: شیخ اعظمی۔
وقت کی ایک عادت بہت اچھی ہے اچھا ہو یا برا بلا کسی توقف کے اپنی رفتار کے ساتھ گزر جاتا ہے، میرے ایک امتحان کا وقت بھی گزر چکا تھا، ندا بالکل ٹھیک ہوکر اپنے پیروں پر کھڑی ہوچکی تھی ؛ لیکن وقت کا دوسرا امتحان آنکھیں دکھائے میرے سامنے کھڑا تھا جو پہلے امتحان سے کہیں زیادہ سخت اور حیران کن تھا، اس امتحان کی کامیابی میری زندگی کی ہار تھی اور ناکامی زندگی کی فتح ، میں ایک انجان دوراہے پر کھڑا عجیب سی کشمکش میں مبتلا تھا، رات کی نیندیں اڑ چکی تھیں اور دن کا سکون نا جانے کہاں رخصت ہوگیا تھا، میرے دل کے کسی گوشے میں ندا کے لئے ہمدردی جنم لے چکی تھی جو دن بدن پنپتی جارہی تھی ، پتہ نہیں کیوں؟ میں بلا اختیار بیڈروم کی طرف چلا جاتا اور ندا کو وہاں موجود پا کر الماری میں بلا ضرورت کوئی سامان تلاش کرنے لگتا ، اب میرا یہ روز کا معمول بن چکا تھا ، ندا کا حال بھی مجھ سے کچھ مختلف نہ تھا وہ بھی میرے کمرے میں کبھی صفائی اور کبھی چائے دینے کے بہانے نا جانے دن میں کتنے چکر لگا جاتی ، وہ جب صبح صبح فجر کے بعد چائے لاتی تو پیمانۂ دل جذبۂ مسرت و احسان سے چھلکنے لگتا، میں انبساط کی لہروں میں بہہ جاتا ، بہر ملاقات جو تقریب دونوں کے ہاتھ آئی تھی وہ لے دے کے اس کے لیے چائے اور میرے لیے الماری میں کسی انجان سامان کی تلاش تھی ، دونوں کی حالت اسی طرح تھی ، شاید دونوں ہی ایک دوسرے کے دل کا معاملہ معنوی طور پر سمجھ رہے تھے ؛ لیکن وقت کے مارے اپنی حالت کو الفاظ کا جامہ پہنانے سے قاصر تھے _
میں آج شام کو جب گھر آیا تو بیڈروم میں جا کر اپنا کچھ سامان پیک کرنے لگا ؛ کیونکہ مجھے کل دوپہر ایک بجے کی فلائٹ سے ایک فقہی سیمینار میں شرکت کے لیے حیدر آباد کے سفر پر نکلنا تھا اور وہاں سے تقریباً دو ہفتے میں واپسی متوقع تھی ، ندا کمرے میں داخل ہوئی اور مجھے سامان پیک کرتا دیکھ حیران ہوئی لیکن کچھ کہہ نہ سکی اگلے دن صبح دس بجے میں نے سامان اٹھایا اور والدہ اور ہمشیرہ سے مل کر ندا کو بتائے بغیر ہی ائیرپورٹ کے لیے روانہ ہوگیا _
مجھے حیدر آباد گئے دو دن ہوچکے تھے ، رات کا وقت تھا اور گھڑی تقریباً رات کے ساڑھے دس بجے کا وقت دکھا رہی تھی ، میں مہمان خانہ میں اپنے کمرے میں بیٹھا اپنے مقالے پر نظر ثانی کر رہا تھا ؛ کیونکہ میرا مقالہ جس موضوع پر تھا وہ ابھی زیر بحث نہیں آیا تھا اس لیے کہ سیمینار کئی ایک موضوعات پر تھا ، اچانک سے فون کی گھنٹی بجی اجنبی نمبر تھا میں نے توجہ نہیں دی ، تھوڑی دیر بعد پھر بجی اور رہ رہ کر بجتی رہی ( بتاتا چلوں کہ ان چار پانچ مہینوں میں بھی ہم دونوں میں نمبر کا تبادلہ نہیں ہوا تھا نا تو میرا نمبر اس کے پاس تھا اور ناہی اس کا میرے پاس) فون اٹھایا آواز آئی : ہیلو ! السلام علیکم – آواز زنانہ تھی – آواز سن کر اول وہلہ میں یہ محسوس ہوا کہ یہ آواز شاید میں پہلے کہیں سن چکا ہوں میں نے کہا: وعلیکم السلام ” خیریت سے ہیں” ؟ میں نے کہا : جی ہاں !! پر آپ کون ؟ معذرت میں آپ کو پہچان نہیں سکا دوسری طرف : م م میں یہ کہہ رہی تھی ۔۔۔۔۔ (تھوڑا رک کر ) آپ بتا کر بھی نہیں گئے !! افف !! مجھے دھچکا سا لگا یہ تو ندا کی آواز تھی ، میں نے زیبا ( میری ہمشیرہ) سے آپ کا نمبر لیا ہے وہ بتا رہیں تھیں کہ آپ دو ہفتے کے لیے حیدرآباد گئے ہیں ” جی ! وہ در اصل آپ اس وقت مصروف تھیں اور وقت کم اس لیے خلل اندازی مناسب نہیں سمجھی ” ” واپس کب آئیں گے ؟ ” تقریباً دو ہفتے بعد میرا مطلب ہے کس دن ؟ اس نے کہا
جمعہ کے دن ، کیوں کوئی بات ؟
نہیں !! بس یونہی پوچھ رہی تھی ، وہاں آپ کو کوئی پریشانی تو نہیں ہے ؟
نہیں کوئی پریشانی نہیں ہے !
کھانا کھالیا ؟ اس نے پوچھا
جی ! کھا لیا اور آپ نے ؟
نہیں ! وہ !! بس ابھی ابھی کھاؤں گی ، کام میں مصروف تھی اس لیے کھا نہ سکی اب کھا لوں گی
ٹھیک ہے آپ جلدی سے کھانا کھا لیں ، بعد میں بات کرتے ہیں میں ابھی کچھ کام کر رہا ہوں
” جو آپ کی مرضی ، السلام علیکم”
وعلیکم السلام ، سلام کا جواب دے کر میں نے فون رکھ دیا۔
(جاری)