تضمین بر کلامِ سیِّد کفایت علی کافیٓ علیہ الرحمہ
ازقلم : میرزا امجد رازی
سوزِ خلوت اور نہ سازِ انجمن رہ جاے گا
کوئی نغمہ اور نہ کوئی خوش دَہن رہ جاے گا
وَحشی و مجنوں نَہ کوئی دَشت و بَن رہ جاے گا
کوئی گل باقی رہے گا نَے چمن رہ جاے گا
پر رسول اللہ کا دینِ حَسَن رہ جاے گا
بے ثبات اُٹھ جاے گا مِٹ جاے گا نقشِ قرار
عرصۂ عالم رہے گا وقت کا پرکار زار
یوں تو ہو گا ہر حجابِ کہنہ رُخ بھی تَار تَار
اِنقلابِ دَور گو دنیا میں ہو گا لاکھ بار
سکّۂ دینِ نبی کا پر چلن رہ جاے گا
بھول جاے گی مہک کر جھومنا بادِ صبا
آشیاں جل جاے گا مَوسم نہ ہو گا جانفزا
سازِ لے بدلے گا ہر رقّاصِ خوش آہنگ کا
ہم صفیرو ! باغ میں ہے کوئی دَم کا چہچہا
بلبلیں اُڑ جائیں گی سُونا چمن رہ جاے گا
آنکھ وہ کیا آنکھ جس میں اَشک کا طوفاں نہ ہو
دِل وہ کیا دِل جس میں شوقِ جلوۂ جاناں نہ ہو
حیف ایسی زندگی پر ، عقبیٰ کا ساماں نہ ہو
اطلس و کمخواب کی پَوشاک پر نازاں نہ ہو
اِس تنِ بے جان پر خاکی کفَن رہ جاے گا
نقشِ تصویرِ بُتاں مِٹ جائیں گے لیکن یہاں
عہد و پیمانِ زباں مِٹ جائیں گے لیکن یہاں
اہلِ عیشِ جاوِداں مِٹ جائیں گے لیکن یہاں
نامِ شاہانِ جہاں مِٹ جائیں گے لیکن یہاں
حشر تک نام و نشانِ پنجتن رہ جاے گا
وجہِ اَرض و گردشِ افلاک کے اوپر درود
قبلۂ قدسی و اہلِ خاک کے اوپر درود
شافعِ محشر رسولِ پاک کے اوپر درود
جو پڑھے گا صاحبِ لَولَاک کے اوپر درود
آگ سے محفوظ اُس کا تَن بدَن رہ جاے گا
ہوں گے نطقِ دیگراں ماضی و لیکن حشر تک
محفلیں ہو جائیں گی خالی و لیکن حشر تک
خاک ہو گا گفتۂ رازیٓ و لیکن حشر تک
سب فنا ہو جائیں گے کافیٓ و لیکن حشر تک
نعتِ حضرت کا زبانوں پر سخن رہ جاے گا