تحریر : طارق انور مصباحی
ضروریات دین کی دوسری تعریف:
ضروریات دین وہ دینی امور ہیں جن کوخواص اور خواص کے صحبت یافتہ عوام جانتے ہوں۔
(1)قال الہیتمی الشافعی:(المراد بالضروری ما یشترک فی معرفتہ الخاص والعام)(تحفۃ المحتاج جلدنہم: ص104-مکتبہ شاملہ)
ترجمہ:امام ابن حجرہیتمی شافعی مکی (909-974ھ)نے رقم فرمایا:ضروری دینی سے مراد وہ امر دینی ہے جس کی معرفت میں عوام وخواص مشترک ہوں۔
توضیح:مشترک ہونے سے مراد یہ ہے کہ عوام وخواص دونوں کو ضروری دینی کا علم بدیہی طورپرحاصل ہوتا ہے۔ نظروکسب اور استدلال کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس امر دینی کو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے عوام وخواص سماعت کریں تو بھی بلااستدلال اس کا یقین بدیہی حاصل ہوگا۔اگر خبر متواتر کے ذریعہ کسی ضروری دینی کاعلم حاصل ہوتو بھی بلا استدلال اس کا یقین بدیہی حاصل ہوگا۔ عوام وخواص کے ضروری دینی کے علم میں مشترک ہونے کا یہی مفہوم ہے کہ وونوں طبقہ کو بلا استدلال اس کا علم حاصل ہوتا ہے۔
(2)قال جلا ل الدین المحلی الشافعی:((جاحد المجمع علیہ المعلوم من الدین بالضرورۃ)وہوما یَعرِفُہ مِنہُ الخواص والعوام من غیر قبولٍ لِلتَّشکِیکِ فالتحق بالضروریات کوجوب الصلٰوۃ والصوم وحرمۃِ الزنا والخمر(کَافِرٌ قَطعًا)لان جَحدَہ یستلزم تکذیب النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فیہ)(شرح جمع الجوامع:جلددوم:ص201-مکتبہ شاملہ)
تر جمہ:امام جلال الدین محلی شافعی نے رقم فرمایا:(جس اجماعی امرکا دین سے ہونابداہۃً معلوم ہو)،یہ ایسا امردینی ہے جس کو خواص وعوام کسی شک وشبہہ کو قبول کیے بغیر جا نتے ہوں،پس ضروریات دین میں نمازوروزہ کی فرضیت،زنا وشراب کی حرمت شامل ہے۔ (اس اجماعی امر کا منکریقینی طورپرکافرہے)اس لیے کہ اس کا انکاراس امر کے بارے میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تکذیب کو مستلزم ہے۔
(3) اعلیٰ حضرت امام احمدرضا قادری قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:
(فسرت الضروریات بما یشترک فی علمہ الخواص والعوام)
(فتاویٰ رضویہ جلداول:ص6-رضااکیڈمی ممبئ)
ترجمہ:ضروریات دین کی تفسیر یہ کی گئی کہ وہ دینی مسائل جن کے علم میں عوام وخواص مشترک ہوں۔
تعریف میں علم سے مرادملکہ
قسط اول میں بیان کیا جا چکاہے کہ ضروریات دین کی تعریف میں خواص سے حضرات ائمہ مجتہد ین مراد ہیں اورعوام سے مجتہدین کرام کے صحبت یافتہ علمائے اسلام۔
ضروریات دین کی مذکورہ بالا تعریف میں ضروری دینی کے علم سے ملکہ مراد ہے،علم بالفعل مراد نہیں،یعنی خواص اور ان کے صحبت یافتہ علمائے کرام کو ایسا ملکہ حاصل ہوجاتا ہے، جس سے انہیں ضروریات دین کا ادراک حاصل ہو جاتا ہے۔
خواص کے صحبت یافتگان کو یہ معلوم رہتا ہے کہ قطعی الدلالت آیا ت مقدسہ،قطعی الد لالت احادیث متواترہ اور اجماع متصل سے جوامردینی ثابت ہو، وہ امر ضروری دینی ہے۔
مشق ومزاولت کے سبب خواص کے صحبت یافتگان کوبھی ملکہ حاصل ہوجاتا ہے، جب کہ غیرصحبت یافتگان کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ قطعی الدلالت کیا ہے،حدیث متواتر کیا ہے اور امر اجماعی کیا ہے۔ غیر صحبت یافتگان کوبھی بہت سی ضروریات دین کا علم بالفعل ہوتا ہے،لیکن ان کو ملکہ حاصل نہیں ہوتا، نہ ہی وہ ضروریات دین وغیر ضروریات دین میں فرق وتمیز کی قوت رکھتے ہیں۔
علوم وفنون کی تعریفات میں لفظ علم سے ملکہ مراد
حضرت صدرالشریعہ بخاری نے علم فقہ کی ایک تعریف اس طرح نقل فرمائی:
(وقیل:العلم بالاحکام الشرعیۃ العملیۃ من ادلتہا التفصیلیۃ)
(التنقیح مع التوضیح والتلویح:جلد اول ص 18:درالکتب العلمیہ بیروت)
ترجمہ:شرعی عملی احکام کو اس کے تفصیلی دلائل سے جاننا علم فقہ ہے۔
توضیح:علم فقہ کی منقولہ بالا تعریف فقہائے شوافع نے بیان فرمائی ہے۔توضیح کے حاشیہ:تلویح میں علامہ تفتازانی نے اس کی صراحت فرمائی ہے۔
علامہ تفتازانی نے رقم فرمایا:(قولہ:(وقیل:العلم)عرف اصحاب الشافعی رحمہ اللّٰہ تعالی الفقہ بانہ:العلم بالاحکام الشرعیۃ العملیۃ من ادلتہا التفصیلیۃ)(التلویح مع التوضیح:جلد اول:ص21-دارالکتب العلمیہ بیروت)
توضیح:منقولہ بالا تعریف میں لفظ علم سے حضرت علامہ ابن حاجب مالکی قدس سرہ القوی نے ”خاص استعداد“ یعنی ملکہ مراد لیا ہے۔
علامہ تفتازانی نے رقم فرمایا:
(اجاب ابن الحاجب بان المراد بالاحکام المجموع-ومعنی العلم بہا التہیؤ لذلک)(التلویح مع التوضیح:جلد اول:ص21-دارالکتب العلمیہ بیروت)
توضیح:حضرت علامہ ابن حاجب مالکی نے فرمایا کہ علم سے علم کی استعداد اور ملکہ مراد ہے۔حضرت صدر الشریعہ بخاری علیہ الر حمۃ والرضوان نے علامہ ابن حاجب مالکی قدس سرہ القوی کی توضیح پر یہ اعتراض کیا کہ لفظ علم بول کر ”تہیو مخصوص“مرادنہیں لیا جاسکتا۔
قال صدر الشریعۃ:(لا یلیق فی الحدود ان یذکر العلم ویراد بہ تہیؤ مخصوص-اذ لا دلالۃ للفظ علیہ اصلا)
(التوضیح والتلویح مع التنقیح:جلد اول ص 31:درالکتب العلمیہ بیروت)
ترجمہ:حدودوتعریفات میں یہ مناسب نہیں کہ لفظ علم کا ذکر کیا جائے اوراس سے خاص استعداد مراد لیا جائے، اس لیے کہ لفظ علم کی اس (استعدادخاص)پربالکل کوئی دلالت نہیں۔
علامہ تفتازانی نے صاحب توضیح کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ لفظ علم سے استعداد اور ملکہ مراد ہوتا ہے اور علوم وفنون کی تعریفات وحدود میں لفظ علم سے ملکہ ہی مرادہے۔
علامہ تفتازانی نے رقم فرمایا:(لا نسلم ان لا دلالۃ للفظ العلم علی التہیؤ المخصوص-فان معناہ:ملکۃ یقتدر بہا علی ادراک جزئیات الاحکام- واطلاق العلم علیہا شائع ذائع فی العرف-کقولہم فی تعریف العلوم: ”علم کذا وکذا“-فان المحققین علی ان المراد بہ ہذہ الملکۃ-ویقال لہا ایضا الصناعۃ،لا نفس الادراک-وکقولہم:وجہ الشبہ بین العلم والحیاۃ کونہما جہتی الادراک)
(التوضیح والتلویح مع التنقیح:جلد اول ص 31:درالکتب العلمیہ بیروت)
ترجمہ:ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ لفظ علم کی دلالت خاص استعداد پر نہیں،اس لیے کہ خاص استعدادکا معنی ہے:ایسا ملکہ جس کے ذریعہ احکام کے جزئیات کے ادراک پر قدرت حاصل ہو،اورعرف میں اس (ملکہ)پر لفظ علم کا اطلاق شائع وذائع ہے،جیسے اہل علم کا علوم کی تعریفات میں کہنا:(یہ)علم ایساایسا ہے،پس محققین اس پر ہیں کہ اس سے مراد ملکہ ہے،اور علوم کو صناعت بھی کہا جاتا ہے، نہ کہ نفس ادراک،اورجیسے اہل علم کا قول کہ:علم اور حیات کے در میان وجہ شبہ ان دنوں کا جہت ادراک ہونا ہے۔
توضیح:جس طرح علم اورحیات میں وجہ شبہ یہ ہے کہ دونوں سبب ادراک ہیں،اسی طرح علم اور ملکہ میں وجہ شبہ یہ ہے کہ دونوں سبب ادراک ہیں،پس اسی مشابہت کے سبب علم کا اطلاق ملکہ پرہوتا ہے اور علم سے ملکہ مراد لیا جاتا ہے اور علوم وفنون کی تعریفات میں کہا جاتا ہے کہ یہ علم ایسا ہے،مثلاً علم منطق ایسے قوانین کا جاننا ہے جس کی رعایت ذہن کوخطا فی الفکر سے بچاتی ہے تو یہاں علم سے مراد ملکہ ہے۔ یہی محققین کا مذہب ہے۔
اسی طرح ضروریات دین کی تعریف مشہورمیں علم سے ملکہ مراد ہے۔علم بالفعل مراد نہیں۔بہت سی ضروریات دین کا علم غیر صحبت یافتہ عوام کوبھی ہوتا ہے،مثلاً جاہل مسلمان بھی جانتے ہیں کہ اسلام میں پانچ فرائض ہیں:ایمان، نماز،روزہ،حج،زکات۔
اسی طرح بہت سے دینی مسائل کا بھی ان کو علم ہوتا ہے۔ جاہل مسلمان بھی جانتے ہیں کہ نماز میں بات چیت کرنے سے نما ز ٹوٹ جاتی ہے۔ قبلہ رخ ہوکر نماز پڑھنا ہے۔ روزہ کی حالت میں کھانے پینے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
ہاں، جاہل مسلمانوں کو یہ ملکہ حاصل نہیں ہوتا کہ وہ ضروریات دین اور غیرضروریات دین میں فرق کرسکیں اور صحبت یافتہ عوام کو یہ ملکہ حاصل ہوتا ہے کہ وہ ضروریات دین وغیر ضروریات دین میں فرق کر سکیں۔ان کو یہ اصول وقانون معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی قطعی الدلالت آیات مقدسہ، قطعی الدلالت احادیث متواتر ہ، اجماع متصل اور عقل صحیح سے ثابت ہونے والے دینی امور ضروریات دین ہیں۔یہ چاروں ضروریات دین کے دلائل ہیں۔
سوال: جس طرح ائمہ مجتہدین کو اجتہاد واستنباط کا کامل ملکہ ہونے کے باوجود کسی سبب سے ان سے اجتہادی خطا کا صدور ہوتا ہے،اسی طر ح خواص اور خواص کے صحبت یافتگان کو ضروریات دین کی فہم وتمیزمیں تحقیقی خطا کاصدور عقلی طورپر ممکن ہے یانہیں؟
جواب:ضروریات دین کے دلائل قطعی بالمعنی الاخص ہوتے ہیں،یعنی قطعی الثبوت بھی اور قطعی الدلالت بھی،اس لیے ضروریات دین میں خطا قبول نہیں،اورغلط راہ اختیارکرنے والا کافر ومرتدہے،اور دین اسلام سے خارج ہے۔قطعیات میں اجتہاد کی اجازت نہیں۔خطاکا سبب یہی ہوگا کہ اس نے اجتہادکیا ہو،اوراپنی عقل کو دخل دیا ہو۔ بدیہیات میں بھی سوفسطائیہ کا اختلاف ہے۔ایسا اختلاف قبول نہیں ہوتا۔
ظنیات میں اجتہاد کی اجازت ہے،اور اجتہاد میں خطا ممکن ہے،پس محل اجتہاد میں اجتہادی خطا کے سبب مجتہد معذور ہے،بلکہ اپنی محنت ومشقت صرف کرنے کے سبب ماجورہے،یعنی ایک ثواب کامستحق ہے۔اصابت حق پر دوثواب کا مستحق۔قطعیات میں نہ اجتہاد کی اجازت ہے،نہ اجتہاد کی ضرورت،اس لیے ضروریات دین میں اجتہادی خطا کا تصو رنہیں۔
ضرورت سے کیا مراد ہے؟
ضرورت سے بداہت مراد ہے۔ ضروریات دین سے بدیہیات دین مراد ہیں۔
اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:(فسرت الضروریات بما یشترک فی علمہ الخواص والعوام-اقول: المراد العوام الذین لہم شغل بالدین واختلاط بعلماۂ-والا فکثیرمن جہلۃ الاعراب لاسیما فی الہند والشرق لایعرفون کثیرًا من الضروریات-لابمعنٰی اَنَّہُم لَہَا منکرون بل ہم عنہا غافلون- فشتان ما عدم المعرفۃ ومعرفۃ العدم-وان کان جہلًا مرکبًا فلا تجہل۔
والتحقیق عندی ان الضرورۃ ہٰہنا بمعنی البداہۃ-وقد تقرران البداہۃ والنظریۃ تختلف باختلاف الناس-فرب مسألۃ نظریۃ مبنیۃ علٰی نظریۃ اُخرٰی-اذا تَبَیَّنَ المَبنٰی عند قوم حَتّٰی صَارَ اَصلًا مُقَرَّرًا وَعِلمًا ظَاہِرًا-فَالاُخرٰی التی لم تکن تحتاج فی ظہورہا الا اِلٰی ظُہُورِ الاُولٰی-تلتحق عندہم بالضروریا ت وان کانت نظریۃً فی نفسہا۔
ا لا تری ان کل قوس لم تبلغ ربعًا تاما من اربعۃ ارباع الدور وجود کل من القاطع والظل الاول لہا بدیہی عند المہندس لا یحتاج اصلا الی اعمال نظر وتحریک فکر بعد ملاحظۃ المصادرۃ المشہورۃ المسلمۃ المقررۃ-وان کان ہو والمصادرۃ کلاہما نظریین فی انفسہما-ہکذا حال ضروریات الدین)(فتاویٰ رضویہ جلداول:ص6-رضااکیڈمی ممبئ)
ترجمہ:ضروریات دین کی تفسیر یہ کی گئی کہ وہ دینی مسائل جن کے علم میں عوام وخواص مشترک ہوں۔اقول:عوام سے مراد وہ لوگ ہیں جودینی مسائل سے ذوق وشغل رکھتے ہوں اور علما کی صحبت سے فیض یاب ہوں،ورنہ بہت سے اعرابی جاہل خصوصاً ہندوستان اور مشرق میں ایسے ہیں جوبہت سی ضروریات دین سے آشنا نہیں۔اس معنی میں نہیں کہ ضروریات دین کے منکر ہیں،بلکہ وہ ان سے غافل ہیں۔بڑا فرق ہے عدم علم اورعلم عدم میں۔خواہ یہ جہل مرکب ہی ہوتو اس فرق سے بے خبری نہ رہے۔
اور میرے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ ضرورت یہاں بداہت کے معنی میں ہے اوریہ بات طے شدہ ہے کہ مختلف لوگوں کے اعتبارسے بداہت ونظریت بھی مختلف ہوتی ہے۔ بہت سے نظری مسائل کی بنیاد کسی اور نظری پر ہوتی ہے۔اگر وہ بنیاد کسی طبقہ کے نزدیک روشن وواضح ہوکر ایک مقررہ قاعدہ اورواضح علم کی حیثیت اختیار کرلے تو دوسرا مسئلہ جس کے واضح ہونے کے لیے بس اسی پہلے مسئلہ کے واضح ہونے کی ضرورت تھی، اس طبقہ کے نزدیک ضروریات کی صف میں آجاتا ہے،اگرچہ وہ بذات خود نظری تھا۔ دیکھو!ہندسہ داں (جیومیٹری والے) کے نزدیک یہ بات بالکل بدیہی ہے کہ ہروہ قوس جو دور کے چار ربع میں سے ایک کامل ربع کے برابر نہ پہنچے،اس کے لیے قاطع اور ظل اول ہونا ضروری ہے۔ اس میں کسی نظر کے استعمال اورفکر کو حرکت دینے کی ضرورت نہیں، جب کہ مشہور مسلم مقرر مصادر ہ ملحوظ ہو، اگرچہ یہ کلیہ اوروہ مصادرہ بذات خود دونوں نظری ہیں۔یہی حال ضروریات دین کاہے۔
توضیح:ضروریات دین اپنی اصل کے اعتبار سے نظری ہیں، لیکن مومنین کے لیے بد یہی ہوگئیں اور غیر مومنین کے لیے نظری باقی رہیں۔ ضروریات کے بدیہی ہونے کی بنیاد حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی رسالت ونبوت کو تسلیم کرلینا ہے۔
جب مومنین نے رسالت ونبوت کوتسلیم کرلیا تو ضروریات دین تمام مومنین کے لیے بدیہی ہوگئیں اور غیر مومنین کے لیے نظری باقی رہیں۔ضروریات دین کا بدیہی ہونا اور عوام وخواص کا ان سے واقف ہونا،یہ دونوں ضروریات دین کے لیے دو وصف ہیں۔وصف کے ختم ہونے سے اصل شئ کا ختم ہونا لازم نہیں آتا، مثلاً انسان کا وصف بولنا،سننا،دیکھنا ہے۔ پتھر میں یہ اوصاف نہیں ہیں،لیکن اندھا انسان دیکھتا نہیں، بہرا آدمی سنتا نہیں،گونگا آدمی بولتا نہیں تو اگر کوئی نہ دیکھ سکے،نہ سن سکے،نہ بول سکے،یعنی اندھا،بہرا،گونگاہوتو وہ پتھر نہیں ہوجائے گا، کیوں کہ وصف کے معدوم ہونے سے شئ کی حقیقت معدوم نہیں ہوتی ہے۔عوام وخواص اگر کسی ضروری دینی سے نا آشنا ہوں تو اس کا ضروری دینی ہونا ختم نہیں ہوجاتا ہے۔
متکلمین کے یہاں کسی ضروری دینی کا منکر اسی وقت کافرقرار دیا جائے گا، جب وہ اس ضروری دینی سے واقف ہو۔لاعلمی کی صورت میں ضروری دینی کے انکار کے سبب کافر نہیں ہوگا،لیکن جب اسے بتا دیا جائے اور وہ ضروری دینی اس کے نزدیک متواتر ہوجائے،پس اب اس ضروری کا انکار کفر ہوگا۔اب اسے اس ضروری کوتسلیم کرنافرض ہوگا۔