افسانہ نگار : شیخ اعظمی
ان پانچ ، چھے مہینوں میں کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا، اپنے ہی گھر میں گھٹ گھٹ کر زندگی گزر رہی تھی ، اوپر سے اس خوشحالی کی اداکاری سے تو بالکل تنگ آ گیا تھا، صبر کا پیمانہ ٹوٹ چکا تھا ، ہمت جواب دے چکی تھی، اور پانی سر سے گزرنے لگا تھا ، اب وقت آچکا تھا کہ کوئی قطعی فیصلہ کیا جائے، ندا میرے پاس ایک امانت تھی حالات اس کی سپردگی کا تقاضا کر رہے تھے ، میں اس طرح اس کو اپنے پاس رکھ کر اس کی زندگی برباد کرنا نہیں چاہتا تھا، وقت کا دھارا بڑی تیزی سے بہہ رہا تھا زندگی کی کشتی بھنور میں پھنسی ہچکولے لے رہی تھی کشتی کے دونوں مسافروں کی امیدیں ایک دوسرے سے وابستہ تھیں دونوں ہی ملاح تھے اور دونوں ہی مسافر ، کشتی کو حالات کے رحم و کرم پر بھی نہیں چھوڑا جاسکتا تھا، بالآخر میں نے کشتی کو ساحل تک پہنچانے کا پختہ ارادہ کرلیا خواہ اپنی جان کا نذرانہ کیوں نہ دینا پڑے، ایک طرف دل تھا کہ اس کی جدائی کے خیال سے ہی کانپا جاتا تھا اور دوسری طرف ضمیر کہ جو پرندے کو پنجرے میں زبردستی قید رکھنے پر مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیتا، میں دل میں دعا گو رہتا کہ خدایا کوئی ایسا فیصلہ نا کرنا کہ زندگی دو بھر ہو جائے_
میں نے اپنے ایک دوست سے جو پیشے سے وکیل تھے خلع کے کاغذات تیار کرا لیے ، اب زندگی کی نگاہیں ایک دستخط پر ٹکی تھیں اور وہ ندا کے دستخط تھے، میں نے اپنا فیصلہ ندا پر چھوڑ دیا اور کاغذات لیکر اس کے کمرے کی طرف بڑھ گیا پتہ نہیں کیوں ؟ قدم خود بخود لڑکھڑا رہے تھے ، جوں جوں قدم ندا کے کمرے کی طرف بڑھ رہے تھے دل کی دھڑکنیں تیز ہورہی تھیں اور سانسیں بے ترتیب بلکہ اکھڑی جاتی تھیں ، دل دو حصوں میں بٹ چکا تھا ایک میں تو امیدوں کا سمندر موجزن تھا اور دوسرے میں خوف کے طوفانوں نے ہلچل مچا رکھی تھی، ایک طرف آس کے دیے روشن تھے اور ایک طرف یاس کی تاریکیوں کا ڈیرہ تھا ، میں لڑکھڑاتے قدموں سے کمرے کے دروازے تک پہنچا ، دروازہ کھٹکھٹایا، چند لمحوں میں دروازہ کھل گیا
"آئیے”
میں اندر گیا اور بیڈ کے ایک کونے پر بیٹھ گیا وہ کھڑی رہی ، میں نے کہا : بیٹھ جائیے وہ بیٹھ گئی
” مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے "
"جی ! "
میں تھوڑی دیر خاموش رہا اور بات کرنے کے لیے الفاظ تلاشنے لگا سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ گفتگو کا آغاز کس طرح کروں الفاظ ساتھ چھوڑ رہے تھے دماغ کی ڈکشنری خالی نظر آرہی تھی چند بے ترتیب جملے باقی رہ گئے تھے انھیں سے کام چلانا تھا بالآخر دبے دبے لفظوں اور گھٹے گھٹے لہجے میں کہنا شروع کیا :
"آپ جانتی ہیں کہ زندگی دو دن کا کھیل نہیں بلکہ ایک طویل مسافت کا نام ہے اور یہ بھی جانتی ہیں کہ اس مسافت کو طے کرنے اور منزل تک پہنچنے کے لیے کسی ہمسفر کا ہونا بہت ضروری ہے جو ہمارے دکھ درد میں شریک ہو ، ہماری پریشانیوں کو اپنی پریشانی سمجھ کر سآتھ چلنے والا ہو ، ہمارے مزاج سے آشنا ہو اور کم از کم ہماری پسند سے ٹکراتا نا ہو ورنہ اذیتیں زندگی کا مقدر بن جاتی ہیں ہمارے اور تمہارے درمیان ایک ایسی خلیج حائل ہے جس کا عبور کرنا شاید کسی کےلیے ممکن نہیں ؛اس لیے اب مجھے لگتا ہے کہ ہمیں کوئی حتمی فیصلہ کرلینا چاہیے ، اس طرح زندگی گزارنا دونوں کے لیے دشوار ہے _
میں تھوڑی دیر خاموش رہا اور وہ بت بنی نظریں جھکائے سب کچھ سنتی رہی
” میں نے خلع کے کاغذات تیار کرا لیے ہیں اب ان پر دستخط کرنا نا کرنا آپ کے اختیار میں ہے آپ کا ہر فیصلہ تسلیم کیا جائے گا "
میری یہ بات سن کر وہ حیران و ششدر رہ گئی ، میں اس سے نظریں نہ ملا سکا اور کاغذات دیکر جانے لگا ، اس کی حیرانی سے کچھ امید بندھی تھی ؛ لیکن مسلسل خاموشی شاید کچھ اور کہہ رہی تھی ، ذہن و دل میں ہلچل سی مچی ہوئی تھی ، کبھی طوفان اٹھتا اور اور سارے منظر کو دھندلا کر دیتا اور کبھی امید کے بادلوں سے برسات ہوتی اور منظر ایک دم صاف ہوجاتا اس دماغی ہلچل کے ساتھ قدم دروازے کی طرف بڑھ رہے تھے میں جیسے ہی دروازے پر پہنچا اس نے پیچھے سے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میں جیسے ہی مڑا وہ میرے کاندھے سے لگ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ، پھر روتے ہوئے الگ ہوئی اور پوچھنے لگی : کیا آپ مجھے چھوڑ دیں گے ؟
” اگر آپ چاہیں گی تو —— "
” لیکن میں تو نہیں چاہتی "
” میں بھی تو نہیں چاہتا "
” تو پھر یہ کاغذات کیوں بنوائے ؟ "
” آپ تو یہی چاہتی تھیں "
” پہلے چاہتی تھی، اب نہیں "
یہ کہہ کر اس نے کاغذات پھاڑ دیے اور روتے ہوئے دوبارہ میرے سینے سے لگ گئی ، مجھے ایسا لگا کہ پوری دنیا سمٹ کر میری بانہوں میں آگئی ہے _
اب ہماری شادی کو ٢٥/سال ہوچکے ہیں ہمارے بچے بھی بڑے ہوگئے ہیں اور محترمہ اب تک میری ڈاڑھی پکڑ کر مجھے چھیڑتے ہوئے شرارتاً کہتی ہیں "
پتہ نہیں ! مجھے ڈاڑھی والوں سے اتنی نفرت کیوں ہے۔
ختم شد