از قلم : محمد رفیق مصباحی شیرانی
وَذَكِّرْ فَإنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤمِنِينَ (الذاريات: 55)
ہر انسان کی زندگی میں وقت بہت اہمیت کا حامل ہے، جس کی قدر و پابندی کرنےوالاآدمی ہمیشہ خوش حال اور کامیاب رہتاہے، سکھ وچین کے لمحات وپل اس کے گرد طواف کرتے نظر آتے ہیں _
اس کے لمحات وأوقات کے بارے میں ہمیشہ حکمانے کہا ہے کہ یہ تلوار کی مانند ہے اگر تم نے اسے نہیں کاٹا تو یہ تمھیں کاٹ کر رکھ دے گا، یہ بھی کہا: قتل الوقت قتل الحیاة یعنی وقت کاقتل(برباد) کرنا زندگی کا خون کرنا ہے _
مگرایک طالب علم کی زندگی میں اس کی اہمیت کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی ہے بلکہ اس کی کامیابی کی کنجی ہی وقت کا صحیح استعمال کرنا ہے، اگر وہ اپنے تھوڑے سے وقت کی بھی قدر کرنا سیکھ گیا تو اس کے حیرت انگیز نتائج سامنے آئیں گے، جیسا کہ احمد امین نے کہا ہے ” قلیل من الزمن یخصص کل یوم لشئ معین یغیر مجری الحیاة ویجعلھا أفضل ممانظن وارقی ممانتخیل ” یعنی تھوڑا سا وقت جوروزانہ کسی معین چیز کےلیے خاص کرلیا جائے تو یہ ہماری زندگی میں اتنا حیرت انگیز انقلاب پیدا کردے گا جو وہم و گمان سے بھی بڑھ کر ہے-
علی طنطاوی نے بڑی پتے کی بات کہی ہے، جس پر ہر طالب علم کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے وہ کہتے ہیں کہ "اگر طالب علم ہفتہ میں ایک دن حضور ذہنی اور دلجمعی کے ساتھ منہمک ومشغول ہوکر پڑھ لے، جس طرح امتحان کی شب میں مطالعہ کرتا ہےتب بھی وہ علامہ بن سکتا ہے ” مگر افسوس! کہ ہفتہ میں تو کیامہینے میں بھی وہ دن نہیں آتا –
آپ کامیاب لوگوں کی زندگی کا جائزہ لیجیے سب میں ایک چیز مشترک نظر آئے گی وہ ہے وقت کی پابندی – اگر معلم، متعلم، امام، مؤذن، مقتدی، تاجر، ملازم، معمار، مزدور، ماسٹر، ڈاکٹر، انجینئر وغیرہ اپنے وقت کا محاسبہ کرنے لگ جائے کہ اس کادن، ہفتہ، مہینہ، چھ مہینے، سال کس چیز میں گزرا؟ کتنا علمی اضافہ ہوا؟ تحریر وتقرير میں کتنا نکھار آیا؟ حدیث وتفسير، فقہ وادب، تاریخ وسیرت کا مطالعہ کس قدر ہوا ہے؟ پہلے کے مقابلے میں نیا کیا اور کتنا سیکھا ہے؟ طاعت الہی میں کتنا وقت صرف ہوا اورمعصیت میں کتنا ضائع کیا؟اس طرح اگر وہ خود احتسابی کی عادت بنالے کہ اس نے اپنے فرصت کے اوقات میں کیا کیا؟ تو یہ یقیناً کسی بھی بے حس ومردہ ضمیر کو جھنجھوڑ نے کے لیے کافی ہوگا، بلکہ ہر طالب علم کو ہفتہ، مہینے، تین مہینے میں ایک "یوم حساب” کے نام سے دن مقرر کرنا چاہیے جس میں بیٹھ کر سنجیدگی سے اپنے بیتے ایام اور گزرے اوقات کا محاسبہ کرکے ایک کامیاب زندگی کاآغاز کرے اگر یہی سوچ اورعادت سب کی بن جائے تو ہر صغیر وکبیر کا جمود وتعطل ختم ہوسکتا ہے ورنہ تو اس امت کا اللہ ہی محافظ ونگہبان ہے
جبکہ مشاہدہ تو یہ بتاتا ہے کہ وقت کا محاسبہ کرنا تو دور کی بات، ہم نے خود اپنی بربادی کا سامان پیدا کر لیا ہے، یعنی ٹائم پاسنگ اور وقت گزاری کے ذرائع بلفظ دیگر وقت کا خون کرنے کے لیے، بیٹھکیں، بزمیں، مجلسیں سجا رکھی ہیں، جہاں دیررات تک بیٹھ کر خوب گپ شپ، جھوٹ، چغلی، غیبت، ٹھٹھاوقہقہ، اخلاق سوز باتوں سے مجلسیں گرم رہتی ہیں –
جبکہ رات کو آرام وسکون کے لیے بنایا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :” جَعَلَ الَّیْلَ سَکَنًا” یعنی اس نے رات چین وسکون کے لیے بنائی(انعام آیت 96) دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ” وَجَعَلْنَا الَّیْلَ لِبَاسًا”(سورہ نبا، آیت 10)
حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ لباس سے مراد سکون ہے اب معنی ہوجائے گا کہ ہم نے رات کو سکون کے لیے بنایا
علاوہ ازیں دیر رات تک شب بیداری کرکے ہم اپنے رب، اپنے نفس اور اپنے اہل وعیال کی حقوق تلفیوں میں گرفتار ہوتے ہیں، چنانچہ حضرت ابو جحیفہ سے مروی ہے : ان لربك عليك حقاوان لنفسك عليك حقا ولأهلك عليك حقا فاعط كل ذي حق حقه(بخاری شریف،کتاب الادب، باب التکلف فی صنع الطعام للضیف، ج:2،ص:906) یعنی تجھ پر تیرے رب، نفس اور اہل وعیال کا حق ہے، لہذا ہر حق دار کا حق ادا کرو_
اِنَّ ھذِہ تَذْكِرَةٌفَمَنْ شَاءَ اِتَّخَذَ اِلی رَبِّہ سَبِیْلاً (سورہ دھر، آیت نمبر 29)ترجمہ کنزالایمان: یہ نصیحت ہے، جوچاہے اپنے رب کی طرف راہ لے
اور دنیاوی نقصان تو جگ ظاہر ہے کہ جب ہماری ننھی کلیاں (چھوٹے بچے) بڑوں کے اس طرح کے حالات دیکھیں گے تو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا جائیں گے،یعنی وہ بچے جو کسی مدرسہ، اسکول، کالج، یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں، وہ جب اپنے گردو پیش میں لذیذ وپر لطف مجالس، مذاق ومستی کا شور و ہنگامہ برپا ہوتا دیکھیں گےتو کیا ایسی حالت میں وہ سیلف اسٹڈی کریں گے، یاکوئی بھی گارزن انھیں مطالعہ کرنے کی تاکید کرسکتا ہے جو خود دیر رات تک بیٹھ کر اپنا قیمتی سرمایہ (وقت) ضائع کرتا ہے گویاخود لاشعوری طورپر اپنے بچوں کا مستقبل تاریک کررہے ہیں ویسے بھی ہماری تعلیمی، اقتصادی پسماندگی کے ہرطبقے میں چرچے ہیں بچی کھچی کسر ان بیٹھکوں، کلبوں، بزموں سے پوری ہوگئی _
جبکہ احادیث کریمہ میں بعد عشا قصہ گوئی وغیرہ کرنے سے منع فرمایا گیا ہے دیکھیے (ترمذی شریف، ابواب الصلوۃ، باب ماجاء فی کراھیة النوم قبل العشاء والسمر بعدھا، ج:اول، ص:42)
فرمان رب العزت ہے: "أَوَ لَمْ نُعَمِّرْ كُمْ مَايَتَذَكَّرُ فِيْهِ مَنْ تَذَكَّرَ ” سورہ فاطر، آیت :37،ترجمہ کنزالایمان:کیا ہم نے تمہیں وہ عمر نہ دی تھی جس میں سمجھ لیتا جسے سمجھنا ہوتا،
آج ہر کوئی اپنا قیمتی وقت اور زندگی کاعظیم سرمایہ، فضولیات میں گنوا رہا ہے، بوڑھا، بچہ، جوان، مرد، عورت، ہرکسی کے ہاتھ میں انڈروائیڈ اور اسمارٹ فون ہے، کوئی گیمس میں مصروف ہے تو کوئی فلم بینی میں، کوئی کھیل تماشوں
میں مگن ہے تو کو
ئی عریاں وفحش مناظر وسیریل دیکھنے میں مستغرق –
یاد رکھیے! ہمارا ایک ایک پل ولمحہ ریکارڈ ہورہا ہے، جوبھی وقت گزررہا ہے اور اس کے اندر ہم نے جو بھی کیا ہے یا نہ کیا ہے اس کے بارے میں ہم سے حساب لیا جائے گا -اس وقت ہمارے پاس کیا جواب ہوگا
آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: لاتزول قدما عبد یوم القیامۃ حتی یسال عن أربع خصال، عن عمرہ فیما افناہ وعن شبابہ فیما ابلاہ، وعن مالہ من این اکتسبہ وفیماانفقہ، وعن علم ماذا عمل فیہ (جامع الترمذی، ابواب صفة القیامۃ، باب فی شان الحساب والقصاص ج:2، ص:67
یعنی بروز قیامت کسی بھی بندے کا قدم اپنی جگہ سے اد وقت تک نہیں ہٹ سکتا جب تک کہ چار خصلتوں کےبارے میں اس سے نہ پوچھ لیا جائے اور ان کا حساب نہ لے لیا جائے : (1) عمرکے بارے میں کہ اسے کہاں گنوایا، (2) جوانی کے بارے میں کہ اسے کہاں بوسیدہ کیا، (3)مال کے بارے میں کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا (4)علم کے بارے میں کہ اس پر کس حد تک عمل کیا –
ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے کی ضرورت ہے کیا ہم ان چیزوں کا حساب دینے کے لائق ہیں؟
ذکرِ الہی سے خالی مجلس پر افسوس
زندگی کا ایک ایک لمحہ اس قدر قیمتی ہے اہل جنت کو جنت میں داخل ہونے کے بعد بھی ان بے فائدہ بیتے لمحات پر حسرت و افسوس ہوگا- چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: ماقعد قوم مقعدا لایذکرون اللہ عزوجل ولایصلون علی النبی (صلی اللہ علیہ و سلم) الا کان علیھم حسرةیوم القیامۃ وان دخلوا الجنةللثواب(مسند احمد، حدیث نمبر 10225،کنزالعمال،کتاب السلام وفضائلہ، حق المجالس والجلوس حدیث نمبر 25454
جو لوگ کسی ایسی میں بیٹھے جس میں نہ وہ اللہ کا ذکر کرے اور نہ آقا علیہ السلام پر درود وسلام کے گلدستے پیش کرے تو وہ مجلس ثواب کی کمی کی وجہ سے بروز قیامت ان کے لیے حسرت وافسوس کا سبب بنے گی، اگرچہ وہ جنت میں داخل ہوجائیں –
ٹال مٹول
ٹال مٹول کرنااور آج کا کام کل پر ڈالناوقت اور عمر کو برباد کرنے والی بلا ہے، ہرچیزیعنی لکھنے، پڑھنے، یا کوئی بھی کرنے میں ہماری یہی عادت بنی ہوئی ہے کہ "چھوڑو کل کرلیں گے”، "چلو کل پڑھ لیں گے”، "کل دیکھ لیں گے” سچ پوچھیں تو ہماری ناکامی ونامرادی کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہم ہر چیز کو کل پر ڈالتے رہتے ہیں، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ کل ہماری زندگی میں کبھی نہیں آتا اور ناکام کے ناکام رہ جاتے ہیں – کاش! اپنے کاموں کو کل پر ڈالنے کے عادی نہ ہوتےاور یہ ذہن بنالیتے کہ آج کا کام آج ہی کرنا ہے، تو یقیناً ہم کامیاب و کامران وبامراد ہوتے-اگر آپ اپنے مقصد کے حصول میں سنجیدہ ہیں تو جلی حروف (بڑے حروف) میں یہ تحریر لکھ کر دیوار پر آویزاں کیجیے ” لاتوجل عمل الیوم الی غد” یعنی آج کا کام کل پر نہ ڈال – اگر اس پر عمل ہوگیا تو یوں سمجھ لوکہ کامیابی کا راز مل گیا بلکہ یہ ایک ایسے خزانے کی کنجی ہے، جس میں مال بھی ہے، علم بھی ہے، عزت بھی، شہرت بھی، خوشی بھی، کامیابی بھی اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ -آج ہر شخص کے پاس وقت ہے جتنا وقت ایک امیر کو ملتا ہے اتنا فقیر کوبھی مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں وقت کو صحیح طور پر استعمال کرنا نہیں آیا، اگر ہم یہ عزم کرلیں کہ وقت کو ضائع نہیں کریں گے، بیکار نہیں بیٹھیں گے، ایک ایک منٹ کی قدرکریں گے تو تنگی وقت کے سارے گِلے شکوے ہی ختم ہوجائیں فَھَلْ مِنْ مُدَّکِرْ ؟ (سورہ قمر آیت نمبر 15)
ہے کوئی نصیحت پکڑنے والا؟
ناقص مشورہ
چلتے چلتے ناچیز راقم الحروف (محمد رفیق مصباحی شیرانی) کا ناقص مشورہ بھی قبول فرمالیں، خاص طور پر طلباے مدارس کے لیے مفید ہوگا، آج ایک طالب علم یومیہ کم سے کم دس روپے کھانے، پینے، چائے نوشی اور پان خوری وغیرہ میں خرچ کردیتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ تو ان کے لیے مشورہ یہ ہے کہ یہ لوگ ایک گلہ خرید کر اپنے پاس رکھ لیں (طلبا کی تخصیص نہیں کوئی بھی ایسا کرسکتا ہے) تو وہ دس روپے خرچ کرنے کے بجائے نو روپے خرچ کریں اور ایک روپیہ گلّے میں برائے تعلیم ڈالیں، اس طرح ایک ہفتہ میں آپ کے گلے میں آٹھ روپے ہوجائیں گے، جن سے آپ کوئی کتابچہ یارسالہ خرید لیں سب سے بہتر تو یہ ہے کہ آپ دعوت اسلامی کا رسالہ خریدیں، ان کے ہر عنوان وموضوع پر اچھے اچھے رسالے دستیاب رہتے ہیں جو 6/7 روپے کی معمولی قیمت میں مل جاتے ہیں، آپ انھیں اپنے ساتھ رکھیں حتی کہ کلاس میں بھی جب بھی موقع ملے اس کا مطالعہ کرتے رہو اور ضرورتاً انڈر لائن کرتے رہو، پھر آئندہ دوسرا رسالہ خرید لیں، اس طرح ایک ایک روپے جمع کرنے اور ہفتہ واری رسالہ خرید نے کے عادی بن جائیں، جس سے وقت کی قدر، وسعت مطالعہ، علمی ذخیرہ ہونے کے ساتھ بہت سے رسالے آپ کے پاس جمع ہوجائیں گے، جن کو آپ ایک ساتھ نہیں خرید سکتے اگر خرید بھی لیا تو پڑھ نہیں پائیں گے اور نہ ایک ساتھ پڑھنے کے لیے اتنا وقت ملے گا، کیونکہ آپ کی ہر اگلی گھڑی پچھلی گھڑی سے مصروف تر ہے توپھر وقت کہاں؟ ان ھذہ تذکرة
نوٹ: یہ چند سطریں وقت کی اہمیت وضرورت پرلکھی گئیں، اگر کوئی باذوق اسی عنوان پر تفصیلی مضمون کا طالب ہو تو ناچیز کا تقریباً 30/ صفحات پر مشتمل مضمون لکھا ہوا ہے، اس کا مطالعہ کرے، جو اس سے بالکل مختلف ہے، جس میں اسلاف کرام کے پابندی وقت کے حوالے سے واقعات وحکایت تحریر کی گئی ہیں –