ہمارے ہاں تقریباً تمام تعلیمی اداروں نیز عوام و خواص کے ذہن میں جنگ آزادی کے اعتبار سے ایک نام نمایاں طور پر سامنے لایا جاتا ہے اور وہ سر سید احمد خان کا ہے۔ مگر تصویر کا فقط یہی ایک رخ ہی لوگوں کے سامنے رکھا جاتا ہے اور اس کے عقائدِ فاسدہ و باطلہ جو اسلام کی تعلیمات کے سراسر خلاف ہیں وہ لوگوں کو نہیں بتائے جاتے۔ سر سید احمد خان نے ایک باطل مذہب وضع کیا تھا جسے انہوں "نیچریت” کا نام دیا تھا۔ ان کے ان منگھڑت عقائد میں سے کوئی ایک عقیدہ رکھنا ہی کفر لازم کر دیتا ہے جبکہ گستاخیاں اس کے علاوہ ہیں۔
ذیل میں سرسید کے عقائد و نظریات ان کی کتابوں سے نقل کیے گئے ہیں۔
خدا کے بارے میں عقائد
ﷲ تعالیٰ اپنے کلام میں فرماتا ہے کہ اس کا پسندیدہ دین اسلام ہے (ان الدین عند الله الاسلام) مگر سر سید اس پر راضی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ: ’’جو ہمارے خدا کا مذہب ہے وہی ہمارا مذہب ہے۔ خدا نہ ہندو ہے نہ عرفی مسلمان، نہ مقلد نہ لامذہب نہ یہودی اور نہ عیسائی، وہ تو پکا چھٹا ہوا نیچری ہے‘‘۔
’’نیچر خدا کا فعل ہے اور مذہب اس کا قول اور سچے خدا کا قول اور فعل کبھی مخالف نہیں ہوسکتا۔ اسی لیے ضرور ہے کہ مذہب اور نیچر متحد ہو۔
نبوت کے بارے میں عقائد
علم عقائد کی تقریباً ساری کتابوں میں "نبی” کی یہ تعریف کی گئی ہے: ’’نبی وہ مرد ہے جسے ﷲ تعالیٰ نے مبعوث کیا، احکام کی تبلیغ کے لیے‘‘۔ اور یہی معنی عوام میں مشہور و معروف ہے اور یہی حق ہے مگر سرسید کہتا ہے کہ: ’’نبوت ایک فطری چیز ہے… ہزاروں قسم کے ملکاتِ انسانی ہیں۔ بعض دفعہ کوئی خاص ملکہ کسی خاص انسان میں از روئے خلقت و فطرت، ایسا قوی ہوتا ہے کہ وہ اس کا امام یا پیغمبر کہلاتا ہے، لوہار بھی اپنے فن کا امام یا پیغمبر ہوسکتا ہے، شاعر بھی اپنے فن کا امام یا پیغمبر ہوسکتا ہے۔ ایک طبیب بھی اپنے فن کا امام یا پیغمبر ہوسکتا ہے‘‘۔
’’جتنے بھی پیغمبر گزرے سب نیچری تھے‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام (حضور محمدﷺ کے بعد مخلوق میں سب سے افضل) کی شان میں گستاخی
’’حج اس بڈھے (ابراہیم علیہ السلام) خدا پرست کی عبادت کی یادگاری میں قائم ہوا تھا اس لیے اس عبادت کو اسی طرح اور اسی لباس میں ادا کرنا قرار پایا تھا۔ جس طرح اور جس لباس میں اس نے کی تھی۔ محمد ﷺ نے اس سویلزیشن (تہذیب) کے زمانے میں بھی اس وحشیانہ صورت اور وحشیانہ لباس (حج کا احرام شریف) کو ہمارے بڈھے دادا کی عبادت کی یادگار میں قائم رکھا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شان میں گستاخی ترميم
"اگر موسیٰ کو کوئی ٹرگنا میٹری کا قاعدہ نہ آتا ہو اور اس نے اس کے بیان میں غلطی کی ہو تو اس کی نبوت اور صاحبِ وحی و الہام ہونے میں نقصان نہیں آتا کیونکہ وہ ٹرگنامیٹری یا اسٹرانومی کا ماسٹر نہیں تھا۔ وہ ان امور میں تو ایسا ناواقف تھا کہ ریڈسی (Red Sea) کے کنارہ سے کنعان تک کا جغرافیہ بھی نہیں جانتا تھا اور یہی اس کا فخر اور یہی دلیل اس کے نبی اولو العزم ہونے کی تھی‘‘۔
حضرت عیسٰی علیہ السلام کی شان میں گستاخی ترميم
آج تک ملت اسلامیہ اس بات پر متفق ہے کہ عیسٰی علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے مگر سرسید کہتا ہے: ’’میرے نزدیک قرآن مجید سے ان کا بے باپ ہونا ثابت نہیں ہے‘‘۔
’’اور وہ (حضرت مریم رضی اﷲ عنہا) حسبِ قانونِ فطرتِ انسانی، اپنے شوہر یوسف سے حاملہ ہوئیں‘‘۔
حضور علیہ السلام کی شان میں گستاخی
’’ایک یتیم بن ماں باپ کے بچے کا حال سنو جس نے نہ اپنی ماں کے کنارِ عافطت کا لطف اٹھایا، نہ اپنے باپ کی محبت کا مزہ چکھا، ایک ریگستان کے ملک میں پیدا ہوا اور اپنے گرد سوائے اونٹ چرانے والوں کے غول کے کچھ نہ دیکھا اور سوائے لات و منات و عزیٰ (بُتوں کے نام) کو پکارنے کی آواز کے کچھ نہ سنا، مگر خود کبھی نہ بھٹکا‘‘۔
خضر علیہ السلام کے بارے میں عقیدہ
’’اور کچھ شبہ نہیں رہتا کہ یہ پرانے قصوں میں سے ایک فرضی نام ہے اور اس کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اصلی واقعات کے ساتھ شامل کر دیا گیا ہے‘‘۔
معجزات کے بارے میں عقائد
سر سید کے مطابق معراج صرف حضور ﷺ کا ایک خواب ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں: ’’معراج کی نسبت جس چیز پر مسلمانوں کو ایمان لانا فرض ہے، وہ اس قدر ہے کہ پیغمبر خدا نے مکہ سے بیت المقدس پہنچنا ایک خواب میں دیکھا اور اسی خواب میں انہوں نے درحقیقت اپنے پروردگار کی بڑی بڑی نشانیاں مشاہدہ کیں… مگر اس بات پر یقین رکھنا چاہیے کہ آنحضرت ﷺ نے جو کچھ خواب میں دیکھا یا وحی ہوئی یا انکشاف ہوا وہ بالکل سچ اور برحق ہے‘‘۔
چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا انکار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’شق القمر کا ہونا محض غلط ہے اور بانی اسلام نے کہیں اس کا دعویٰ نہیں کیا‘‘۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معجزات کا انکار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ہمارے علما و مفسرین نے قرآن مجید کی آیتوں کی یہی تفسیر کی کہ حضرت ابراہیم آگ میں ڈالے گئے تھے اور وہ وہاں سے صحیح سلامت نکلے، حالانکہ قرآن مجید کی کسی آیت میں اس بات کی نص نہیں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں ڈالے گئے تھے‘‘۔
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں: ’’انہوں (حضرت ابراہیم علیہ السلام) نے رویا میں خدا سے کہا کہ مجھ کو دکھا یا پھر بتا کہ تو کس طرح مردے کو زندہ کرے گا، پھر خواب میں خدا کے بتلانے سے انہوں نے چار پرند جانور لیے اور ان کا قیمہ کرکے ملادیا اور پہاڑوں پر رکھ دیا اور پھر بلایا تو وہ سب جانور الگ الگ زندہ ہوکر چلے آئے‘‘۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا انکار اس طرح کرتے ہیں کہ: ’’انہوں (حضرت موسیٰ علیہ السلام) نے اس خیال سے کہ وہ لکڑی سانپ ہے, اپنی لاٹھی پھینکی اور وہ ان کو سانپ یا اژدہا دکھائی دی۔ یہ خود ان کا تصرف تھا اور اپنے خیال میں تھا۔ حالانکہ وہ لکڑی، لکڑی ہی تھی اس میں فی الواقع کچھ تبدیلی نہیں ہوئی تھی‘‘۔
قرآن کریم کی صراحت کے مطابق آج تک ملت اسلامیہ اس بات پر متفق ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام سے ٭ مردوں کو زندہ کرنا ٭ مادر زاد اندھوں کو بینا کردینا ٭ مٹی کی مورت میں پھونک کر اسے زندہ پرندہ بنا دینا، ثابت ہے۔
مگر سرسید ان تمام کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ: ’’حضرت عیسٰی علیہ السلام بچپنے میں لڑکوں کے ساتھ کھیلنے میں مٹی کے جانور بنالیتے تھے اور جیسے کبھی کبھی اب بھی ایسے مواقعوں پر بچے کھیلنے میں کہتے ہیں کہ خدا ان میں جان ڈال دے گا، وہ بھی کہتے ہوں گے‘‘۔
پھر لکھتا ہے: ’’قرآن نے اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی امر وقوعی (واقعی امر) نہ تھا بلکہ صرف حضرت مسیح کا خیال تھا اور زمانہ طفولیت (بچپنا) میں بچوں کے ساتھ کھیلنے میں تھا‘‘۔
یونہی سر سید احمد خان نے اس بات کا بھی انکار کیا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام اندھوں اور کوڑھ کے مریضوں کو بھلا چنگا کردیتے تھے اور اس بات کو بھی نہیں مانا کہ وہ مردوں کو زندہ کردیتے تھے۔
قرآن کے بارے میں عقائد
’’قرآن مجید کی فصاحتِ بے مثل کو معجزہ سمجھنا ایک غلط فہمی ہے‘‘۔
’’ہم نے تمام قرآن میں کوئی ایسا حکم نہیں پایا اور اس لیے ہم کہتے ہیں کہ قرآن میں ناسخ و منسوخ نہیں ہے‘‘۔
فرشتوں کے بارے میں عقائد
’’جن فرشتوں کا ذکر قرآن میں آیا ہے ان کا کوئی اصلی وجود نہیں ہوسکتا۔ بلکہ خدا کی بے انتہا قوتوں کے ظہور کو اور ان قوتوں کو جو خدا نے اپنی تمام مخلوق میں مختلف قسم کے پیدا کیے ہیں ملک یا ملائکہ کہتے ہیں‘‘
’’جبریل نام کا کوئی فرشتہ نہیں, نہ وہ وحی لے کر آتا تھا۔ بلکہ یہ ایک قوت کا نام ہے جو نبی میں ہوتی ہے‘‘۔
جنات کے بارے میں عقائد
’’جس طرح جنّوں کی مخلوق کو مسلمان نے تسلیم کیا ہے ایسی مخلوق کا وجود قرآن سے ثابت ہی نہیں‘‘۔
’’شیطان کوئی جدا مخلوق نہیں ہے، بلکہ انسان میں موجود ایسی قوت جو شر کی طرف لے جائے اسے شیطان کہتے ہیں‘‘۔
عذاب قبر کے بارے میں عقیدہ
’’اگر عذاب قبر میں گناہ گاروں کی نسبت سانپوں کا لپٹنا اور کاٹنا بیان کیا جائے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ درحقیقت سچ مچ کے سانپ جن کو ہم دنیا میں دیکھتے ہیں، وہ مردے کو چمٹ جاتے ہیں۔ بلکہ جو کیفیت گناہوں سے روح کو حاصل ہوتی ہے، اس کا حال انسانوں میں رنج و تکلیف ومایوسی کی مثال سے پیدا کیا جاتا ہے جو دنیا میں سانپوں کے کاٹنے سے انسان کو ہوتی ہے۔ عام لوگ اورکٹ ملا اس کو واقعی سانپ سمجھتے ہیں‘‘۔
مسٹر احمد خان نے یونہی میزان، پل صراط، اعمال نامے اور شفاعت کا بھی انکار کیا ہے۔
امام مہدی کے بارے میں عقیدہ
’’ان غلط قصوں میں سے جو مسلمانوں کے ہاں مشہور ہیں ایک قصہ امام مہدی آخر الزماں کے پیدا ہونے کا بھی ہے۔ اس قصے کی بہت سی حدیثیں کتب احادیث میں بھی مذکور ہیں مگر کچھ شبہ نہیں کہ سب جھوٹی اور مصنوعی ہیں… اور ان سے (احادیث سے) کسی ایسے مہدی کی جو مسلمانوں نے تصور کر رکھا ہے اور جس کا قیامت کے قریب ہونا خیال کیا ہے بشارت مقصود نہیں‘‘۔
صور کے متعلق عقیدہ
صور پھونکنے کی حقیقت بیان کرتے لکھتا ہے: ’’تمام علمائے اسلام صور کو ایک شے، موجود فی الخارج اور اس کے لیے پھونکنے والے فرشتے کے ہونے کا یقین کرتے ہیں اور عموماً مسلمانوں کا اعتقاد یہی ہے… مگر جن عالموں کی یہ (نیچریت والی) رائے ہے وہ بھی مثل ہمارے نہ صور کے لغوی معنی لیتے ہیں اور نہ صور کے وجود فی الخارج کو مانتے ہیں اور نہ اس کے وجود کی اور نہ اس کے پھونکنے والوں کی ضرورت جانتے ہیں‘‘۔
دیدار باری تعالیٰ کے متعلق عقیدہ
’’خدا کا دیکھنا، دنیا میں نہ ان آنکھوں سے ہوسکتا ہے اور نہ ان آنکھوں سے جو دل کی آنکھیں کہلاتی ہیں اور نہ قیامت میں کوئی شخص خدا کو دیکھ سکتا ہے‘‘۔
روزہ نہ رکھنے کی عام اجازت
’’جو لوگ کہ روزہ رکھنے میں نہایت تکلیف اور سختی اٹھاتے ہیں، اگر طاقت رکھتے ہیں تو ان کو اجازت ہے کہ روزے رکھنے کے بدلے فدیہ دے دیں‘‘۔
شراب
’’شراب کی حرمت جب تک نہ ہوئی تھی تمام انبیاِ سابقین اور اکثر صحابہ اس کے مرتکب ہوئے‘‘۔
عیسائی
عیسائیوں کے متعلق لکھتے ہیں: ’’البتہ میری خواہش رہی کہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں محبت پیدا ہو کیونکہ قرآن مجید کے موافق اگر کوئی فرقہ ہمارا دوست ہوسکتا ہے تو وہ عیسائی ہیں‘‘۔
نصاب میں تو ہمیں پڑہایا جاتا ہے کہ سر سید احمد خان دو قومی نظریے کا بڑا علمبردار تھا، خود فیصلہ کریں کہ کیا دو قومی نظریے کا حامی عیسائیوں کے متعلق ایسی خواہش رکھ سکتا ہے؟
مسلمانوں کو ہندو کہہ سکتے ہیں
عجیب و غریب بات تحریر کرتا ہے کہ: ’’پس مسلمانوں اور ہندوئوں میں کچھ مغائرت نہیں ہے۔ جس طرح آریہ قوم کے لوگ ہندو کہلائے جاتے ہیں، اسی طرح مسلمان بھی ہندو یعنی ہندوستان کے رہنے والے کہلائے جاسکتے ہیں‘‘۔
ایصال ثواب
ایصال ثواب کو بیجا عمل قرار دیتے ہوئے لکھا ہے: ’’کسی کے عمل کا، خواہ وہ عبادت بدنی ہو خواہ اس قسم سے ہو جس کو عبادت مالی کہتے ہیں، دوسرے پر خواہ زندہ ہو یا مردہ کچھ اثر نہیں ہوتا‘‘۔
مرزا قادیانی
سر سید احمد خان مرزا قادیانی کذابِ ملعون کے متعلق لکھتا ہیں: ’’حضرت مرزا صاحب کی نسبت زیادہ کدوکاوش کرنی بے فائدہ ہے۔ ایک بزرگ زاہد اور نیک بخت آدمی ہیں… ان کی عزت اور ان کا ادب کرنا بہ سبب ان کی بزرگی اور نیکی کے لازم ہے‘‘۔
انگریز حکومت
برٹش استعمار کے لیے لکھتے ہیں: ’’گو ہندوستان کی حکومت کرنے میں انگریزوں کو متعدد لڑائیاں لڑنی پڑی ہوں مگر درحقیقت نہ انہوں نے یہاں کی حکومت بہ زور حاصل کی اور نہ مکروفریب سے۔ بلکہ درحقیقت ہندوستان کو کسی حاکم کی اس کے اصلی معنوں میں ضرورت تھی۔ سو اس ضرورت نے ہندوستان کو انکا محکوم بنادیا‘‘۔
’’جن مسلمانوں نے سرکار (انگریز) کی نمک حرامی اور بدخواہی کی(1857ع کی جنگِ آزادی میں حصہ لیا) میں ان کا طرف دار نہیں ہوں۔ میں ان سے بہت زیادہ ناراض ہوں اور ان کو حد سے زیادہ برا جانتا ہوں کیونکہ یہ ہنگامہ ایسا تھا کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کے بموجب عیسائیوں کے ساتھ رہنا چاہیے تھا جو اہل کتاب اور ہمارے مذہبی بھائی بند ہیں‘‘۔
"تمام اہلِ ہند اپنے وائسرائے لارڈ کیننگ دَامُ اِقْبَالُہُمْ کا یہ رحم اور احسان کبھی دل سے نہیں بھولیں گے جس میں تمام اصلی حالاتِ فساد پر غور کرکے اس پر رحم کے اشتہار جاری ہونے کی صلاح دی… تمام اہل ہند ان کے اس احسان کے بندے ہیں اور دل و جان سے ان کو دعا دیتے ہیں۔ الٰہی تو ہماری دعا کو قبول کر۔ آمین، الٰہی جہان ہو اور ہمارا وائسرائے لارڈ کیننگ ہو‘‘۔
حوالہ جات
(مقالات سرسید ، حصہ 15 ص 147، ناشر: مجلس ترقی ادب)
(خود نوشت، ضیاء الدین لاہوری،ص 56 جمعیتہ پبلی کیشنز)
(تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور، جلد 1ص 23-24)
(مقالات سرسید، حصہ 15، ص 147، ناشر: مجلس ترقی ادب)
(تفسیر القرآن: سرسید احمد خان، جلد 1ص 206، رفاہ عام سٹیم پریس، لاہور)
(مقالات سرسید، جلد 13ص 396)
(مکتوبات سرسید، حصہ 2ص 116)
(تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، جلد 2ص 30، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)
(تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، جلد 1ص 19، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)
(تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، رفاہ عام سٹیم، پریس لاہور)
(خطبات سرسید ص 427، ناشر مجلس ترقی ادب)
(تصانیف احمدیہ، حصہ اول، جلد 1ص 21)
(تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، حصہ 8، ص 206-208، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)
(تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)
(تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، جلد 13،ص 171، رفاہ عام سٹیم، پریس لاہور)
(تفسیر قرآن، سرسید احمد خان، جلد 2، ص 154، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)
(تفسیر قرآن سرسید احمد خان، جلد 2ص 159، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)
(دیکھیے تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، جلد 2ص 159، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)
(تصانیف احمدیہ حصہ 1جلد 1ص 21)
(تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، جلد 1،ص 143، رفاہ عام سٹیم پریس لاہور)
(تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، جلد 1ص 42، رفاہ عام سٹیم پریس، لاہور)
(تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، جلد 1ص 130، رفاہ عام سٹیم پریس، لاہور)
(مقالات سرسید احمد حصہ 2ص 180، ناشر مجلس ترقی ادب، لاہور)
(خود نوشت ص 70، ضیاء الدین لاہور، جمعیتہ پبلی کیشنز)
(تہذیب الاخلاق جلد 2ص 165)
(دیکھیے تفسیر القرآن، سرسید احمد خان، جلد3ص 73، رفاہ عام سٹیم پریس، لاہور)
(مقالات سرسید، حصہ 6ص 121، ناشر مجلس ترقی ادب)
(مقالات سرسید: حصہ 13،ص 282-283، ناشر مجلس ترقی ادب)
(تفسیر القرآن: سرسید احمد خان، رفاہ عام سٹیم، پریس لاہور)
(مقالات سرسید: حصہ 15ص 390، ناشر مجلس ترقی ادب)
(خود نوشت، ضیاء الدین لاہوری ص 155، جمعیتہ پبلی کیشنز)
(مکتوبات سرسید، جلد 1ص 3، ناشر مجلس ترقی ادب)
(مقالات سرسید، حصہ 15، ص 41، ناشر مجلس ترقی ادب)
(خود نوشت، ص 139، ضیاء الدین لاہوری، جمعیتہ پبلی کیشنز)
(خطوط سرسید)
(حیات جاوید: جلد 2ص 241-242 ناشر بک ٹاک لاہور)
(حیات جاوید جلد 1ص 158 بک ٹاک لاہور)
(خطبات سرسید: ص 34، ناشر مجلس ترقی ادب)