تحریر : محمد عمر نظامی خادم جمعیت علمائے اہل سنت ممبئی
دور حاضر میں مسلم دوشیزاوں پر ملک کی فرقہ پرست طاقتوں کی نگاہ لگی ہوٸی ہے اور آے دن انکے مرتد ہونے ہندوں لڑکوں کے شادی کی خبریں دل دہلا رہی ہیں آج ہر کوٸی سوال کر رہا ہے کہ اس فتنہ ارتداد کو کیسے روکا جاے اور مسلم لڑکیوں کو ہندو بالخصوص آر ایس ایس کے جوانوں کے چنگل سے کیسے بچایا جاے جبکہ ہر جگہ ہندتو طاقتیں ہماری بچیوں کو اپنے چنگل میں پھنسانے کیلیے پوری طرح ٹریننگ لیکر آرہے ہیں اور منصوبہ بند طریقے سےاپنے مشن میں لگے ہوے ہیں یعنی ہم پوری طرح دفاعی پوزیشن میں کھڑے ہیں اور اس محاذ پر لڑاٸی بڑی مشکل سے لڑی جاتی ہے لیکن اگر ہم بھی منصوبہ تیار کرکے آگے بڑھیں تو کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے اگر آپ یہ کہیں کہ لڑکیوں کو کالجوں میں نہ بھیجا جاے تو کوٸی ماننے کو تیار نہیں ہوگا اور یہ الزام آپ آجاےگا کہ ہم اپنی بچیوں کو تعلیم سے محروم کرنا چاہتے ہیں اسی طرح ہر میدان میں جہاں بچیوں کے جانے سے اکی زندگی اور ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کا امکان ہے ہم خود مورد الزام ٹھرا دٸیے جاٸیں گے
اور قوم ہماری بات کو قبول نہیں کرے گی
اس لیے ہمیں کچھ ایسی ترکیب اپنانی ہوگی کہ لڑکیاں تعلیم یافتہ بھی ہوجاٸیں اور فتنہ ارتداد سے بھی بچ جاٸیں
تو سب سے پہلےاپنے ہی ماحول میں ایسےاسکول کالج یونیورسٹیز ریسرچ سینٹر لیب اور کمپیوٹر کورس کا انتظام کرنا پڑےگا جہاں مسلم ماحول ہو اور پورے پردے کیساتھ تعلیم حاصل کرسکیں ہم نے کبھی اس طرف دھیان نہیں دیا جسکا بھیانک نتیجہ آج ہماری نگاہوں کے سامنےہے
پورے ملک میں اسکول کالج یونیورسٹیز کا جال بچھانا ایک مشکل مرحلہ ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں
دوسری صورت یہ ہیکہ ہمارے پاس جو مدارس ہیں جہاں باقاعدہ درس نظامیہ دینی تعلیم ہوتی ہے ہے وقت کی تبدیلی کیساتھ اعلی عصری تعلیم کا بھی انتظام کیا جاے جہاں ہماری بچیاں دینی مسلم ماحول میں تعلیم حاصل کرسکیں
آج کل بڑی تعداد میں نسواں کلیة البنات جگہ جگہ قاٸیم کیا جارہا ہے کیوں نہ ان اداروں کے ذمےداروں سے بات کرکے انھیں اس بات پر آمادہ کیا جاے کہ آپ دینی تعلیم کیساتھ عصری تعلیم کابھی انتظام کریں
صاحب ثروت مالدار طبقہ جو مال کی زکواة نکال کر مدارس کو اچھی خاصی رقم دیتے ہیں وہ اعلی عصری تعلیم گاہ کھولنے کیلیے بھی مفتیان کرام کے مشورے سے زکواة کا ایک حصہ ان اداروں کیلیے مختص کریں جو ادارے دینی تعلیم کیساتھ عصری تعلیم کا بھی نظم کیے ہوے ہیں
ہماری مساجد کے دروازے جو خواتین کیلیے بالکل بند کر دیے گٸیے ہیں جبکہ دن بھر میں بمشکل ڈھاٸی گھنٹہ ہی نماز کیلیے مسجد استعمال ہوتی ہے بقیہ وقت بند رہتی ہے مردوں سے کوٸی خلط ملط نہ ہو ہفتہ واری ہی سہی ایک گھنٹہ ہی کیلیے خواتین کو مسجد میں اجتماع کرنےکی اجازت دی جاے تاکہ بچیوں کی ذہن سازی کی جاسکے
چونکہ مسجد میں آتے ہی اللہ کا خوف دلوں پر طاری ہوتا ہے اور اللہ کے گھر میں جو نصیحت کی جاےگی وہ دلوں پر بھت جلد اثر انداز ہوتی ہے
والدین پوری زمےداری سے اپنی بچیوں پر نگرانی رکھیں
گھر میں غیر مسلم سے ملنا جلنا بند کردیں اگر گاوں میں تعلقات ہیں تو ان سے گھر کے باہر ملیں
بالغ ہونے پر جلد سے جلد نکاح کا انتظام کریں
پہناوے پر بھی خاص دھیان دیں ماڈرن طرز کا کپڑا پہننے سے منع کریں جو خرچ آپ دیتے ہیں اگر اس سے بھاری قیمت کا کپڑا پہنتی ہے تو اس پر بھی بازپرس کریں کہ تمھیں یہ کپڑا کہاں سے ملا
ایسی چند احتیاطی تدابیر اختیار کرکے اس وبا سے بڑی حد تک بچیوں کو محفوظ رکھا جا سکتا